پی ڈی ایم کے لیے خطرے کی گھنٹی، آستین کے سانپ نظر آ گئے

0
68
پی ڈی ایم کے لیے خطرے کی گھنٹی، آستین کے سانپ نظر آ گئے

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ میں آج کے بعد عمران خان کی تعریفیں کروں گا۔ میں ان کی خوبیاں گنواوں گا۔ میں ان کے ہر غلط کام کا دفاع کروں گا تو آپ بالکل غلط سوچ رہے ہیں ۔ عمران خان جب جب جب ٹھیک بات کریں گے ہم ان کی تعریف کریں گے ۔ عمران خان جب اس قوم کے ساتھ مذاق کریں گے ہم عمرا ن خان کو آئنہ دکھائیں گے ۔

مبشر لقمان آفیشیل یوٹیوب چینل پربات کرتے ہوئے مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ کیونکہ بالآخر عمران خان کو وہ سارے آستین کے سانپ نظر آنا شروع ہو گئے ہیں جن کے بارے میں فیصل واوڈا نے بات کی تھی ۔ انھوں نے حالات کے ساتھ سمجھوتا کر لیا ہے ۔ انھوں نے ریاست ۔ معیشت اور عوام کی چولیں ہلانے کے بعد فیصلہ کر لیا ہے کہ سیاست اس طرح نہیں کی جاتی ۔ نا ہی اداروں کے ساتھ ٹکر لی جاتی ہے سانپوں کی آنکھوں سے دیکھنے کی بجائے اب انھوں نے خود اپنی بینائی استعمال کر نا شروع کر دی ہے ۔اب وہ غفلت کی نیند سے بیدا ر ہوتے نظر آ رہی ہیں۔ عمران خان کی ہوا اتنی بدلی بدلی کیسے ہے ؟عمران خان نے جس ٹرک کی بتی کے پیچھے عوام کو لگایا ہوا تھا کیا اس ٹرک نے نیاموڑ لے لیا ہے اور ایک نئی سڑک پر چل نکلا ہے۔یا پھر ایک نئی ٹرک کی بتی تیار ہے ۔اگلے الیکشن کب ہونگے اور ان میں کس کا پلڑا بھاری ہوگا؟

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ آج عمران خان نے جب پارٹی اراکین سے خطاب کیا تو ان کے لہجے میں پہلے سے کافی زیادہ ٹھہراوتھا ان کی زبان میں نرمی تھی ۔ ان کے پاس سیاسی مخالفین کو گالی اور ان کا نام بگاڑنے کی بجائے۔بیان کرنے کو مسائل تھے گوکہ وہ ریاست کے مسائل کو اپنا مسئلہ بنا کر پیش کر رہے تھے لیکن ان کے پاس امریکی سازش سائفر اور رجیم چینچ کے بیانیے کے علاوہ بولنے کےلیے کافی کچھ چیزیں تھیں ۔ کیونکہ عمران خان کو سمجھ آ چکی ہے کہ انسان چاہے جتنا مرضی سازشی تھیوریاں گھڑ لے وہ زیادہ دیر تک عوام کو بے وقوف نہیں بنا سکتا۔انھیں سمجھ آ چکی ہے کہ انسان جتنا مرضی ادروں کے خلاف آواز بلند کر لے ادارے ملک کے دفاع کے پاسبان ہوتے ہیں ۔ ان پر انگلی اٹھانے سے سیاست نہیں چمکائی جا سکتی انھیں سمجھ آ گیا ہے کہ میر جعفر او ر میر صادق کہنے سے ۔ اداروں کے سربراہوں کو غدار کہنے سے اقتدار کی راہ نہیں ہموار کی جا سکتی انھیں سمجھ آ چکی ہے کہ سیاست کرنے کےلیے صرف بیانیہ ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ آپ کو عملی طور پر بھی کچھ کر کے دکھانا پڑتا ہے ۔انھیں سمجھ آ چکی ہے کہ لانگ مارچ کرنے سے ۔ لوگوں کو سڑکوں پر نکالنے سے انتخابات کی تاریخ کسی بھی صورت نہیں ملا کرتی ۔انھیں یہ بھی اچھی طر ح سے سمجھ آ چکا ہے کہ انسان فوج کو متنازعہ بنا کر۔ ریاست کو یرغمال بنا کر صرف خود کو تو بیوقوف بنا سکتا ہے ۔ لیکن اپنی مرضی کا آرمی چیف کسی صورت نہیں لگا سکتا۔ انھیں معلوم ہو چکا ہے کہ راستہ چاہے جتنا لمبا ہو آخر اس میں موڑ آنے ہوتے ہیں ۔انھیں یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ ان کے ارد گرد جو لوگوں کا جمگٹھا لگا ہوا ہے ۔ جو انھیں مشورے دیتے ہیں ۔ وہ سارے عمران خان کے سگے نہیں ہیں ۔لیکن دیر آید درست آیداور کوئی پتا نہیں کل دوائی کوئی اور اثر نہ دیکھا دے۔ لیکن چلو جب تک امید تو کی جا سکتی ہے۔اس لیے عمران خان مزاحمت کی سیاست کی بجائے مفاہمت کی سیاست پر یقین رکھنا شروع ہو گئے ہیں ۔ہلکے ہلکے شرمیلی دلہن کی طرح شرافت کا گھنگٹ اٹھا رہے ہیں،کیونکہ گالی دے کر بھی دیکھ لیا اور منت ترلہ کر کے بھی۔ کوئی ہتھیار نہیں چلا تو کوئی اور راستہ تو لینا ہے۔انھوں نے خود کو یقین دلا دیا ہے کہ اب الیکشن اپنے وقت پر ہی ہونگے ۔انھوں نے خود کو یقین دلا دیا ہے کہ ریاست مدینہ ثانی فرح گوگی اور بشری مانیکا کی کرپشن کے ہوتے ہوئے کبھی نہیں بن سکتی ۔انھوں نے خود کو یقین دلا دیا ہے کہ صرف دعوں کے اونچے مینار دیکھ کر کبھی بھی مغرب سے لوگ یہاں نوکری کرنے نہیں آئیں گے ۔۔انھوں نے خود کو یقین دلا دیا ہے کہ صرف چند سال میں ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہائی جا سکتیں ۔انھوں نے خود کو یقین دلا دیا ہے کہ کنٹینر پر اونچی آواز میں دھاڑنے سے اور ایک کروڑ نوکریوں کا صر ف وعدہ کرنے سے اب کام نہیں بنے گا۔انھوں نے خود کو یقین دلا دیا ہے صرف ہوائی فائر کرنے سے پچاس لاکھ گھر تعمیر نہیں کیے جا سکتے ۔انھوں نے خود کو یقین دلا دیا ہے کہ اس وقت اسمبلیاں بھی کسی صورت تحلیل نہیں ہونگی ۔کیونکہ بظاہر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پرویزالہی نے عمرا ن خان پر اعتماد کا اظہار کردیا ہے اور انھوں نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ بھی عمران خان پر چھوڑ دیا ہے ۔تحریک انصاف کے لوگ بار بار یہ صفائیاں پیش کر رہے ہیں کہ چوہدر ی پرویزا لہی عمران خان کا ساتھ دینے کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔۔عمران خان کہیں گے تو وہ جان بھی حاضر کر دیں گے ۔۔لیکن گل وچ ہور اے

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ مونس الہی کے اس بیان کے بعد کہ ہم جنرل باجوہ کے کہنے پر عمران خان کے ساتھ شریک ہوئے اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ چوہدریوں کو نا تو عمران خان سے کوئی لگاو ہے۔۔ اور نا ہی عمران خان کی سیاست سے کوئی لگاو ہے انہوں نے اپنے مفادات دیکھنے ہیں اور اپنی سیاست کی بقا دیکھنی ہے، جس دن سے عمران خان کے ساتھ آئے ہیں ان کی زندگیوں میں طوفان برپا ہے، لیکن وہ طوفان صرف کرسی کے نشے میں ہیں برداشت کیا جا سکتا ہے، گھر بیٹھ کر نہیں۔اور اگر آپ اوچھی سیاست میں کرسی بھی گنوا دیں گے تو آپ خود ہی یہ خود کشی کریں ہمیں مرنے کا کوئی شوق نہیں۔مونس الہی کے اس بیان کے بعد تحریک انصاف کے لوگوں نے ایک بار پھر سے سوشل میڈیا پر مٹی پلیت کرنے کی کوشش کی لیکن اس بار عمران خان کو اچھے طریقے سے پتا چل گیا کہ اگر عمران خان کے کرسی کے ساتھ مفادات جڑ سکتے ہیں تو کسی کے بھی مفادات جڑ سکتے ہیں ۔اس لیےانھوں نے خود کو یقین دلا دیا ہے کہ اگر میں کل کو چوہدری پرویزا لہی کو اسمبلی توڑنے کا کہتا بھی ہوں تو آگے سے صاف انکار آنا ہے ۔اس لیے ایک بار پھر عوام کے سامنے زلالت کاٹنے اور ایک اور یوٹرن لینے سے بہتر ہے کہ ابھی سے عام انتخابات کی تیار ی کر لو۔ورنہ کیا کسی نے کبھی سوچا تھا کہ وہ عمران خان جو کہتا تھا میں مر جاوں گا لیکن ان چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا۔ جو کہتا تھا کہ ملک ان ڈاکوں کے ساتھ مزاکرات کرنے سے ٹھیک نہیں ہوتے جس کے دل میں اپنے سیاسی مخالفین کےلیے اتنی نفرت تھی کہ وہ اداروں کو مجبور کرتا تھا کہ میرے سیاسی مخالفین کے خلاف کیس بناو۔ انھیں بغیر تحقیقات کے جیل میں ڈالو۔وہ عمران خان انھی لوگوں کے ساتھ ۔۔ انھی سیاستدانوں کے ساتھ کبھی مزاکرات کےلیے بیٹھے گا۔سیاسی پنڈت سمجھتے تھے کہ اگر کبھی ایسا ہوا تو وہ کسی چمکتار سے کم نہیں ہوگا۔وہ چمکتار آج ہو گیا۔۔ اور عمران خان محض ایک انتخابات کے اعلان پر ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں۔ واہ عمران خان کیا خوب قیمت لگوائی۔عمران خان نے حکومت کو الیکشن پر مزاکرات کی بھی پیش کش کر دی ۔۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ ایسا کہہ کر ایک طرح سے عمران خان نے سیاسی دانش کا ثبوت تو پیش کیا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اپنے سیاسی مخالفین کےلیے بھی خطرے کی ایک گھنٹی بجائی ہے عمران خان نے الیکشن کا نعرہ لگا کر الیکشن سے ایک سال پہلے ہی ا پنی عام انتخابات کی مہم کو تیز کر دیا ہے اب عمران خان نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ ہر ڈویژن ۔۔ ہر ضلعے کے تحریک انصاف کے رہنماوں سے ملاقاتیں کریں گے ۔۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ عمران خان نے یہ طے کر لیا ہے کہ انتخابات اگلے سا ل اکتوبر میں ہی ہونگے اس لیے اگر انتخابات جیتنے ہیں تو کھوکھلے وعدے کرنے کی بجائے زمینی حقائق کو جاننا ہوگا۔۔ حالات و واقعات کو پرکھنا ہوگا۔شروع سے پارٹی کی تنظیم سازی کرنی ہوگی ۔جلسوں کی بجائے تحریک انصاف کیStreet Powerکو مزید آگے لے جانا ہوگا کیونکہ عمران خان اب خوابوں کے سراب سے نکلتے نظر آ رہے ہیں سازشی محلات کے بند ہونے اور خوابوں کے ٹوٹنے کے بعد شائد عمران خان اب آسمان سے زمین پر آ چکے ہیں۔اور حقیقی منظر نامہ ان کے سامنے ہے انھیں یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ اب چور دروازے کے خواب کبھی سچ نہیں ثابت ہونگے اب کوئی Electableان کی جھولی میں نہیں ڈالے گا۔اب راتوں رات لوگوں کی وفاداریاں نہیں تبدیل ہونگی اب قانون پاس کرنے کےلیے کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو نا معلوم نمبر سے کال نہیں جائے گی اب ان کے پاس اے ٹی ایمز کی کوئی لمبی فہرست نہیں ہوگی انھیں اپنی کشتی کو سہارا دینے کےلیے خود چپو چلانا سیکھنا ہوگا۔۔ اب کوئی ان کی کشتی کا چپو نہیں چلائے گا اور نا ہی کوئی ملاح انھیں دریا کے بھنور سے نکالے گا۔اب عشق کے امتحاں پہلے سے زیادہ گہرے ہونگے ۔اور اب میدان میں اصل مقابلہ ہوگاکوئی آر ٹی ایس سسٹم بٹھانے والا نہیں ہوگا کوئی کیسز ختم کروانے وا لا نہیں ہوگا اور اس بار عمران خان کا مقابلہ کرنے کےلیے نواز شریف جیل کی بجائے خود گراونڈ میں اتریں گے ۔زرداری بھی میدان میں ہونگے اور جو فیصلہ عوام کریں گے وہی حقیقی فیصلہ ہوگا وہی حقیقی جمہوریت ہوگی اور یہی جمہوریت کا حسن ہے ۔۔اس ملک کے بارے میں سوچیں، ا سکی عوام کے بارے میں سوچین، سیاست کریں لیکن اتنی کہ نہ قوم برباد ہو اور نہ ہی ملک۔ سوچنے کی بات ہے۔

عمران خان کو آرمی چیف سے کیا چاہئے؟ مبشر لقمان نے بھانڈا پھوڑ دیا

عمران ریاض کو واقعی خطرہ ہے ؟ عارف علوی شہباز شریف پر بم گرانے والے ہیں

الیکشن کیلیے تیار،تحریک انصاف کا مستقبل تاریک،حافظ سعد رضوی کا مبشر لقمان کوتہلکہ خیز انٹرویو

بشریٰ بی بی، بزدار، حریم شاہ گینگ بے نقاب،مبشر لقمان کو کیسے پھنسایا؟ تہلکہ خیز انکشاف

تحریک انصاف میں پھوٹ پڑ گئی، فرح گوگی کی کرپشن کی فیکٹریاں بحال

عمران خان، تمہارے لئے میں اکیلا ہی کافی ہوں، مبشر لقمان

عمران خان کو آرمی چیف سے کیا چاہئے؟ مبشر لقمان نے بھانڈا پھوڑ دیا

عمران خان سے ڈیل کی حقیقت سامنے آ گئی

وہ کون تھا..؟ راز کھل گئے، بھانڈا پھوٹ گیا

Leave a reply