آئیں پہلے اپنی اصلاح کریں بقلم: اخــتِ طلحـہ بــٹ

0
30

آئیں پہلے اپنی اصلاح کریں

اخــتِ طلحـہ بــٹ

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

ہمارے معاشرے میں فکری انتشار نے جنم لیا ہے اور یہی فکری انتشار ہمارے اسلامی معاشرہ کو کمزور کر رہے ہیں۔مسلمان ایک دوسرے سے تنگ نظری کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں اس کے نتیجے میں اتحاد و یکجہتی اور وحدت اور فکر و عمل غائب ہوتے جا رہے ہیں
اور اختلافات’چپقلش’کدورتیں اور تنازعات ظاہر ہوتے جا رہے ہیں۔فکری انتشار اور باہمی جھگڑے معاشرہ کی بنیاد ہلا کر رکھ دیتے ہیں اسی وجہ سے اللہ تعالی نے مسلمانوں کے مابین اتحاد’اتفاق’وحدتِ فکرو عمل اور صلح و مفاہمت قائم رکھنے کا حکم دیا ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔” (الانفال:46)

تفرقہ بازی کا آغاز اور مقصد……
اللہ تعالیٰ نے فرقہ بندی یا انتشار فکری کے آغاز کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا

"لوگوں میں جو تفرقہ رونما ہوا وہ اس کے بعد ہوا کہ ان کے پاس علم آ چکا تھا’اور اس بنا پر ہوا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے” (الشوری:14)

یہ تفرقہ بازی اللہ کی طرف سے علم آ جانے کے بعد شروع ہوا۔اس لیے اللہ اس کا ذمہ دار نہیں ہے بلکہ لوگ خود اس کہ ذمہ دار ہیں جنہوں نے دین کے صاف صاف اصول اور شریعت کے واضح احکام سے ہٹ کر نئے نئے مذاہب و مسالک بنائے۔

اس تفرقہ بازی کا محرک کوئی نیک جذبہ نہ تھا’بلکہ یہ ایک الگ فکر پھیلانے اور ایک دوسرے کو زک دینے کی کوشش اور مال و جاہ کی طلب کا نتیجہ تھی۔

قرآنِ کریم میں اللہ تعالی نے تفرقہ بازی کو ظلم قرار دیا گیا اور تفرقہ برپا کرنے والوں کے لیے دردناک عذاب کی خبر دی ہے۔ارشادِ ربانی ہے:

"لہذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی میرا رب بھی ہے تمہارا رب بھی۔اسی کی عبادت کرو’یہی سیدھا راستہ ہے مگر اس (صاف تعلیم کے باوجود)گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا’پس تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے ظلم کیا ایک درد ناک دن کے عذاب سے” (الزحرف63_65)

تفرقہ بازی سے بچاؤ کا حکم…….
اللہ تعالی نے فرمایا۔
"(اے محمد ﷺ) اب آپ ﷺ
کی طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے،اور جس کی ہدایت ہم ابراھیم اور موسیٰ علیہ السلام کو دے چکے ہیں’اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ”۔ (الشوریٰ:13)

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

"انتشار فکری یعنی تفرقہ بندی سے بچنے اور اتحاد امت کے فروغ کے لیے اللہ تعالٰی نے ایک اور جگہ پر حکم فرمایا کہ:

اور تم سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔” (آل عمران: 103)

اللہ کی رسی سے مراد اس کا دین ہے اور اس کو رسی سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہل ایمان کا تعلق اللہ سے قائم کرتا ہے اور دوسری طرف تمام ایمان والوں کو باہم مل کر ایک جماعت بناتا ہے ۔
اس رسی کو مضبوط پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں اصل اہمیت دین کی ہو،اسی سے ان کو دلچسپی ہو،اسی کی اقامت میں وہ کوشاں رہیں اور اسی کی خدمت کے لیے آپس میں تعاون کرتے رہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ
"کتــاب الــلــه حبــل الـلــه المـمدود من السـماء الـی الارض” (ابن کثیر)

"اللہ کی کتاب ہی وہ رسی (حبل اللہ)ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے۔”

مرکز اتحاد کے بارے میں دنیا کی اقوام کی راہیں مخلتف ہیں۔کہیں نسل اور نسب کے رشتوں کو مرکز وحدت سمجھا گیا،کہیں رنگ کا تفاوت وحدت کا مرکز بن گیا اور کہیں زبان مرکز وحدت قرار پائی۔
قرآن مجید نے مومنوں کو ایک قوم بنا کر حبل اللہ (اللہ کی رسی)سے وابستہ کیا۔
لہذا ملت اسلامیہ کا مرکز نظریہ اور عقیدہ جو ان کے پاس قرآن کریم اور دین اسلام کی شکل میں ہے۔اس مرکز سے وابستہ رہنے ہوئے مسلمانوں کو انتشار اور فرقہ بندی سے روکا گیا ہے

عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے
شکوہ ترکمانی’ذہن ہندی’نطق اعرابی

آخری گزارش

ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جائے جس میں نیکی و خیر کی جدو جہد کی جاتی ہو
اور منکرات و مفاسد اور بدعات کی رسموں کو ختم کیا جائے،تبھی ہمارے معاشرے میں اللہ تعالی کی طرف سے فیوض و برکات نازل ہو گی۔
معاشرے کو اچھے حکمران عطا ہونگے ،وباو بیماریوں کو خاتمہ ہو گا
پھر ایسا معاشرہ کامیاب و مستحکم ہو گا ،اس کی بنیاد مضبوط ہو گی
اس معاشرے کے افراد کتاب اللہ اور رسول ﷺ کی اتباع و تقلید کا جذبہ پیدا ہو گا۔
اس سبب سے یہ معاشرہ ناقابلِ تسخیر بن جائے گا۔

اختکم اختِ طلحہ بٹ

Leave a reply