جب سے آسٹریلیا کا دورہ پاکستان کا اعلان ہوا تھا تو ہمارے دشمن تو اسی دن سے سازشیں کرنے میں مصروف ہوگئے تھے ۔ پہلے ای میلز کا سہارا لیا گیا ۔ مگر جب یہ فارمولا کامیاب نہ ہوا تو آج ایک بار پھر پاکستان کو لہو میں نہلا دیا گیا ۔ پشاور قصہ خوانی کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران دھماکے کے نتیجے میں اب تک پچاس سے زائد افراد شہید ہوگئے ہیں ۔ جبکہ ان کی تعداد میں مزید اضافہ بتایا جارہا ہے کیونکہ بہت بڑی تعداد میں لوگ شدید زخمی بھی ہیں ۔ ۔ عینی شاہدین کے مطابق کالے لباس میں ملبوس خودکش حملہ آور نے پہلے سکیورٹی اہلکاروں پر پانچ سے چھ فائر کیے اور پھر تیزی سے مسجد کے اندر داخل ہوا ۔ اور منبر کےسامنے پہنچ کر خودکش حملہ آور نے خود کو اڑا لیا ۔ دھماکے کے بعد مسجد کے ہال میں ہر طرف انسانی اعضا پھیل گئے۔ ایک افراتفری کا عالم اور قیامت خیز منظر تھا ۔ ۔ یہ بہت ہی افسوس ناک سانحہ ہے کیونکہ مت بھولیں چوبیس سالوں کی کوشش کے بعد آسٹریلوی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی ہے اور اس نے اتنے برسوں تک سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ہی پاکستان کا دورہ نہیں کیا تھا۔
۔ اس دھماکے کی ٹائمنگ بہت اہم ہے ۔ مسجد اور نماز جمعہ کو ہی نشانہ بننا خاص پلاننگ کا حصہ لگتا ہے ۔ اور آج ہی آسٹریلیا پاکستان ٹیسٹ میچ کا پہلا دن تھا۔ آپکو یاد ہو تو آسٹریلیا کے ٹور سے پہلے نیوزی لینڈ کا ٹور بھی میچز شروع ہونے سے پہلے ہی سیکورٹی وجوہات کی بنا پر کینسل ہوا تھا ۔ وہ پاکستان آکر واپس چلے گئے تھے ۔ جبکہ انگلینڈ نے بھی طے شدہ دورہ پاکستان ملتوی کردیا تھا۔۔ ہمارے لیے آج یہ ایک تاریخی دن تھا ۔ کیونکہ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان یہ سیریز کرکٹ سے بڑھ کر تھی۔ حالیہ سیریز سے دنیا کو مثبت اور مضبوط پیغام جانا تھا۔ مگرحکومت کی کوتاہی کے سبب اب دنیا بھر کے میڈیا میں یہ ہیڈ لائنز بننے کے بجائے کہ آسٹریلیا چوبیس سال بعد پاکستان میں کھیل رہی ہے ۔ ہیڈ لائنز یہ چل رہی ہیں کہ پاکستان میں نماز جمعہ کے دوران دھماکے میں پچاس سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے ۔ پھر بھارتی میڈیا تو اس سانحہ کو ایسے رپورٹ کر رہا ہے کہ آسٹریلوی ٹیم فورا ٹور کینسل کرکے گھر واپس چلے جائے ۔ ۔ دراصل یہ ہمارے دشمنوں کی جانب سے آسٹریلیا سمیت دنیا بھر کو پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان محفوظ نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جو کام حکومت نے کرنے تھے وہ کیوں نہ کیے گئے ۔ جب معلوم تھا کہ یہ کرکٹ سیریز پاکستان میں بے اتنہا مشکلات اور کوششوں کے بعد شروع ہو رہی ہیں تو پورے ملک میں سیکورٹی ہائی الرٹ کیوں نہ گئ ۔ کیوں صرف آسٹریلیا کی ٹیم کو تو خوب سیکورٹی دی گئی مگر باقی ملک اللہ بھروسے چھوڑ دیا گیا ۔ کیا کسی کو معلوم نہیں تھا کہ دشمن کہیں اور بھی حملہ کرکے یہ ٹور کینسل کروانے کی سازش رچ سکتا ہے ۔ چلیں ٹور نہ بھی کینسل ہو تو کم ازکم ہم کو بدنام کروانے میں تو کامیاب ہوجائے گا ۔
۔ ان سوالوں کے جواب اس حکومت کو دینا ہوں گے ۔ کیونکہ سالوں کی کوششوں سے سرزمین پاکستان سے دہشتگردی کا خاتمہ ہوگیا تھا ۔ آخر کیوں عمران خان کے دور میں یہ دوبارہ سر اٹھا رہی ہے ۔ ایسا کیا ہے جو اس دور میں حکومت کر نہیں پارہی ہے ۔ ۔ یاد کروادوں آج کے سانحہ کے حوالے سے ایس ایس پی آپریشنز پشاور کا کہنا تھا کہ سکیورٹی ہائی الرٹ تھی اور سکیورٹی کے لیے مسجد کے گیٹ پر دو کانسٹیبل تعینات تھے۔ عین شاہدین کے مطابق بھی دہشتگردوں کا ان سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا ۔ ۔ مگر شیخ رشید کا کہنا ہے کہ پشاور دھماکے کے حوالے سے کوئی تھریٹ الرٹ بھی جاری نہیں ہوا تھا۔۔ یوں ایک بار پھر حکومت ، عمران خان ، وزیر داخلہ شیخ اور وزیر اعلی محمود خان کی جانب انگلیاں اٹھ گئی ہیں ۔ نیشنل ایکشن پلان پر بھی سوالیہ نشان اٹھ گیا ہے ۔ کہ کیوں اس کو سفارشات کو لاگو نہیں کیا جاتا ۔ کیونکہ حکومت کے لیے میڈیا سے لے سیاسی مخالفین اور پیکا آرڈیننس تو بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ مگر نیشنل ایکشن پلان پر حکومت کی کوئی توجہ نہیں ۔ سچ یہ ہے کہ ایک بار پھر پاکستان میں دہشت گردی پنپ رہی ہے ۔ ۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ آخر کیوں ہم معاملات کو سیریس نہیں لیتے ۔ ایسا واقعہ کسی اور ملک میں ہوا ہوتا تو اب تک سب بڑے سر جوڑ کر بیٹھے ہوتے ۔ اور دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے کا آپریشن اسٹارٹ ہوچکا ہوتا ۔ ۔ شیخ رشید یہ سریز شروع ہونے سے پہلے تو بہت بلند وبانگ دعوے کررہے تھے ۔ مگر شاید وہ یہ بھول گئے کہ دشمن تاک میں بیٹھا تھا ۔ صرف بیانات اور باتوں سے معاملات حل ہوتے تو چاہیے کیا تھا ۔
۔ لگتا یوں ہے کہ پورا ملک سیاست میں مگن تھا ۔ حکومت کو ملکی سیکورٹی اور عالمی معاملات سے زیادہ اپنی کرسی بچانے کی فکر تھی ۔ اب بھی حکومت کوئی خاص سنجیدہ دیکھائی نہیں دیتی ۔ ہمیشہ کی طرح گنگلوؤں سے مٹی جھاڑتے ہوئے عمران خان نے پشاور دھماکے کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے بھی وہ ہی رٹا رٹایا بیان جاری کردیا ہے کہ پشاور دھماکا سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش ہے۔ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ سازش کون کررہا ہے ۔ دشمن ہے کون ۔ البتہ شیخ رشید نے بھی چیف سیکرٹری اور آئی جی خیبر پختونخوا سے دھماکے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔۔ مجھے تو آج تک سمجھ نہیں آئی کوئی بھی واقعہ ہوجائے فورا انکوئری رپورٹ طلب کرلی جاتی ہے ۔ اسکے بعد اس رپورٹ کا کیا بنتا ہے ۔ ذمہ داروں کے خلاف کاروائی ہوتی ہے کہ نہیں ۔ کبھی قوم کو کچھ معلوم نہیں ہوپاتا ۔ مگر جن کے پیارے جاتے ہیں ۔ کبھی ان سے جا کر پوچھیں ان پر کیا گزرتی ہے ۔ ۔ پھر وزیر داخلہ شیخ رشید نے وزیراعظم عمران خان کو آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کی سکیورٹی پر بریفنگ بھی دی ہے ۔ تو وزیر اعلی کے پی کے محمود خان ، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور دیگر نے بھی مذمت کرکے اپنا فرض ادا کر دیا ہے ۔ ۔ سوال یہ ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ کیوں سر جوڑ کر نہیں بیٹھ رہی ہے ۔ آخر کیوں دہشتگردوں کو کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے کہ وہ جب چاہیں لاہور ہو، پشاور ہو ، کوئٹہ ہو ، کراچی ہو ۔۔۔ حملہ کرکے پاکستان کو destablize کردیں ۔ ۔ پتہ نہیں اسکے بعد بھی عمران خان بضد رہیں گے یا اپنی سوچ کو بدلیں گے ۔ کہ دہشتگرد بات چیت کی زبان نہیں سمجھتے ان کو ان زبان میں جواب دینا ضروری ہے ۔ آپ نے ایک بار بات چیت کی آفر کرکے اپنا فرض ادا کردیا ہے ۔ اب ریاست پاکستان کو ان سے آہنی ہاتھوں سے ڈیل کرنا ہوگا اور جب تک اس پاک سرزمین پر ایک دہشتگرد موجود ہو چین نہیں بیٹھنا چاہیئے ۔ جن جن ہمسایہ ممالک میں انکی محفوظ پناہ گاہیں ۔ ان سے بات بھی کرنی چاہیے کہ یا تو وہ خود ان کا قلع قمع کریں یا پھر پاکستان کو خود کوئی کاروائی یا کوئی اور طریقہ نکالنا چاہیے ۔
۔ پھر اوپر سے لے کر نیچے تک جب بھی ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے۔ ہر کوئی بیرونی دشمن دشمن کا راگ الاپانا شروع ہوجاتا ہے ۔ مگر اس دشمن کو کبھی دنیا کے سامنے ایکسپوز کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی ۔ کبھی ہمارا فارن آفس ، ہمارا میڈیا اس دشمن کا غلطی سے بھی نام نہیں لیتا ۔ جبکہ بھارت میں کوئی پٹاخہ بھی چل جائے تو تعین بعد میں ہوتا ہے کہ یہ کس نوعیت کا ہوا ہے مگر الزام سب سے پہلے پاکستان پر تھوپ دیا جاتا ہے ۔ ۔ وزیر اعظم عمران خان ، وزیر داخلہ شیخ رشید اور اداروں کو vigilant ہونا ہوگا کیونکہ اس وقت ملک سیاسی افراتفری کا بھی شکار ہے ۔ اور بلاول بھٹو ایک بڑا لشکر لے کر اسلام آباد جا رہے ہیں ۔ جس میں ہزاروں لاکھوں لوگ موجود ہیں ۔ اگر دہشتگرد لاہور ، بلوچستان اور پشاور میں نماز جمعہ کے دوران حملہ کر سکتے ہیں تو بلاول بھٹو اور انکے لانگ مارچ کو سیکورٹی دینا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ مت بھولیں ایسی صورتحال میں دشمن تاک میں بیٹھا ہے اور کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ احتجاج کرنا ، جلسے جلوس اور لانگ مارچ کرنا ہر کسی کا جمہوری حق ہے۔ سیکورٹی دینا حکومت کا کام ہے ۔ مت بھولیں یہ soft target ہیں ۔ خدانخواستہ یہاں کچھ ہوگیا تو دشمن پاکستان کو بڑانقصان اور بڑے مسائل کا شکار کرسکتا ہے ۔ اسی طرح اور بھی چیزوں اور دیگر مقامات پر فورا سیکورٹی ہائی الرٹ کردینی چاہئے جو دہشتگردوں کے لئے آسان ٹارگٹ ہو ۔ پھر یہ وقت کی ضرورت ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ آسٹریلین کرکٹ بورڈ کو فوراengageکرلے ۔ ساتھ ہی ہمارے فارن آفس کو بھی چاہیے کہ وہ آسٹریلوی وزارت خارجہ کے ساتھ رابطہ کرے ۔ صورتحال سے خود آگاہ کرے ۔ ان کی کرکٹ ٹیم کو جو سیکورٹی اور سہولیات دی جارہی ہیں اس بارے پھر سے آگاہ کرے ۔ کیونکہ پشاور سانحہ کو لے کر بھارتی میڈیا نے تو پراپیگنڈہ بھی شروع کر دیا ہے ۔ اس وقت بھارت کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح یہ دورہ آسٹریلیا کینسل ہوجائے ۔ ۔ یاد رکھیں غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں ۔ جو ہوگیا اس سے آگے نکل کر سوچنا ہوگا ۔ اس وقت ہماری سب سے بڑی کامیابی صرف ایک ہی ہے کہ آسٹریلیا کا یہ ٹور خیر خیریت سے ہوجائے ۔ پورے ملک میں دوبارہ ایسا کوئی واقعہ نہ ہو ۔ اگر حکومت ، ادارے اور قوم ملک کر کام کریں تو یہ ناممکن نہیں ۔