فاشزم (فسطائیت). تحریر :عمر خان

0
70

فاشزم (فسطائیت) لاطینی لفظ "فاشیو” سے اخذ کیا گیا ہے جس کا لفظی معنی "ایک بنڈل” ہے، قدیم روم میں سول مجسٹریٹ کے پاس ڈنڈوں کا ایک بنڈل ہوتا تھا وہ گلیوں بازاروں میں پھرتا اور اگر کوئی شہری قانون کی خلاف ورزی کررہا ہوتا تو اس کو سزا کے طور پر ان ڈنڈوں سے پیٹا جاتا۔
فسطائیت (Fascism) آمریت کی ہی ایک شکل ہے ، یعنی ایک پارٹی یا ایک فرد کی حکومت۔ فاشزم ایک ایسا نظام حکومت ہے جس کی قیادت ایک آمر کرتا ہے جو سیاسی مخالف کو جبر و تشدد سے دبائے ، صنعت و تجارت پر مکمل کنٹرول کرے اور قوم پرستی یا نسل پرستی کو فروغ دے کر اپنی آمرانہ حکمرانی برقرار رکھے۔
فاشزم کی واضح مثال اٹلی کا حکمران "بینیتو موزولینی” اور جرمنی کا حکمران ” ایڈولف ہٹلر” رہے ہیں۔
اگرچہ فاشسٹ جماعتیں اور تحریکیں ایک دوسرے سے نمایاں طور پر مختلف تھیں ، لیکن ان میں بہت سی خصوصیات مشترک تھیں جن میں انتہائی شدت پسندانہ رویہ، انتہائی عسکریت پسندانہ قوم پرستی ، سیاسی و ثقافتی آذادی کی توہین ، قدرتی معاشرتی درجہ بندی اور اشرافیہ کی حکمرانی کا اعتقاد شامل ہیں۔

• نیشنلزم (قوم پرستی)

نیشنلزم (قوم پرستی) لفظ Nation (قوم) سے
اخذ کیا گیا ہے۔ قوم کا مطلب انسانوں کا ایسا گروہ جن میں ثقافت ، نسل ، جغرافیائی محل وقوع ، زبان ، سیاست ، مذہب یا روایات پرستی میں سے کوئی ایک بھی قدر مشترک ہو ۔
18 ویں صدی سے پہلے کچھ مخصوص ادوار میں خاص طور پر جنگ ،تناؤ اور تنازعات کے دوران مختلف سلطنتوں میں مخصوص گروہوں یا علاقائی اکائیوں کے اندر قومی احساس کے جذبات اور سوچ موجود تھی۔ 18 ویں صدی میں تہذیب کو قومیت کا تعین سمجھا گیا۔ اس سے قبل کسی بھی سلطنت کے عوام کی پہچان بادشاہ یا حکمران کے نام سے ہوتی تھی ، عوام نے بادشاہ کو قوم کا مرکز بنائے رکھا تھا۔ قوم پرستی کی آئیڈیالوجی نے واضح کیا کہ بادشاہ قوم یا ریاست نہیں ہے۔ ریاست عوام کی قومی ریاست ، آبائی وطن یا مادر وطن ہے۔ جب ریاست کی شناخت قومی تہذیب سے ہوئی تب ریاست قوم کی پہچان بن گئی۔ مثال کے طور پر تب یہ اصول پیش کیا گیا تھا کہ لوگوں کو صرف ان کی اپنی مادری زبان میں ہی تعلیم دی جاسکتی ہے ، نہ کہ دوسری تہذیبوں کی زبانوں میں۔

سلطنتوں کے زیر اقتدار بڑی مرکزی ریاستوں نے لسانی ، ثقافتی ، علاقائی یا مذہبی شناخت کے طور خود کو ایک قوم میں متحد کیا اور پرانے جاگیردارانہ ، آمرانہ ، شخصی حکمرانی سے آذادی حاصل کی۔ ان قومی ریاستوں نے عوام کی ذاتی زندگی اور تعلیمی نصاب کی سیکولرائزیشن کی جس سے عام زبانوں کو فروغ ملا، اور چرچ یا مذہبی شخصیات کے تسلط کو قومی ریاست کی حکومت سے الگ کیا۔ تجارت میں اضافے اور معاشی ترقی نے قوم پرست آئیڈیالوجی میں نئی روح پھونک دی۔اس ترقی نے ان تصورات کا مقابلہ کیا جو صدیوں تک سیاسی فکر اور شہری آزادی پر حاوی تھے
امریکی اور فرانسیسی انقلابات کو اس کا پہلا طاقتور مظہر سمجھا جاسکتا ہے۔ نیشنل ازم 19 ویں صدی کے شروع میں وسطی یورپ میں اور صدی کے وسط تک مشرقی اور جنوب مشرقی یورپ میں پھیلا۔ 20 ویں صدی کے آغاز میں ایشیاء اور افریقہ میں بھی قوم پرستی پھیل گئی۔ اس طرح 19 ویں صدی کو یورپ میں قوم پرستی کا دور کہا جاتا ہے ، جبکہ 20 ویں صدی میں پورے ایشیاء اور افریقہ میں طاقتور قومی تحریکوں کے عروج اور جہدوجہد کا آغاز ہوا۔
مذہبی قوم پرستی کی بنیاد پر بنی ریاست پاکستان اور لسانی نسلی بنیاد پر بنگلہ دیش کا قیام بھی قوم پرستی کی واضح مثالیں ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر قوم کے پاس ایک مخصوص علاقائی ریاست ہو مثال کے طور پر فلسطینوں کے پاس ریاست نہیں ہے لیکن وہ ایک قوم کی شناخت رکھتے ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی ریاست منقسم ہے لیکن اس ریاست کے شہری ایک قوم ہی جانے جاتے ہیں۔

•حب الوطنی (Fascism)

حب الوطنی (Patriotism) کسی ملک ، قوم یا سیاسی جماعت سے وابستگی وفاداری اور محبت کا نام ہے ۔ حب الوطنی (ملک سے پیار) اور قوم پرستی (کسی ایک قوم سے وفاداری) کو اکثر مترادف سمجھا جاتا ہے جبکہ ان دونوں میں واضح فرق ہے۔
حب الوطنی وطن سے محبت جبکہ نیشنل ازم ایک قوم کی عکاس ہے

#عمر نامہ

Leave a reply