مقامِ دل ( پارٹ 2)  تحریر : نعمان ارشد

0
65

عشق والے دل میں نور ہوتا ہے۔ 

قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالٰی ہے

بھلا جس کا سینہ اللّٰه نے اسلام کے لیے کھول دیا ہو وہ اپنے رب کی طرف سے اجالے میں ہے۔ اور خرابی اور ہلاکت ہے ان لوگوں کی جن کے دل اللّٰه کی یاد کرنے پر سخت ہیں۔ یعنی وہ اللّٰه کا ذکر نہیں کرتے اور وہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔ 

مزید ارشادِ باری ہے

اور جن کے دل اللّٰه کے خوف سے ڈرتے ہیں ان کی حالت تو یہ ہے کہ ان کی کھالوں کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور ان کے جسم کی کھالیں اور ان کے دل اللّٰه کی یاد میں نرم ہو جاتے ہیں۔ 

قرآن پاک میں ایسی آیات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ خداوند نے کس انداز سے مومنوں اور کافروں کی دلی کیفیت کو بیان فرمایا ہے۔ یعنی ایمان اور کفر دل کی نرمی اور سختی پر بھی موقوف ہیں۔ یعنی مومن کا دل نرم اور کافر کا دل سخت ہوتا ہے۔ 

حدیث شریف میں ہے کہ شیطان ہر وقت انسان کے دل میں بیٹھا رہتا ہے۔ جب انسان اللّٰه کا ذکر کرتا ہے تو وہ دوڑ جاتا ہے۔ اور جب انسان اللّٰه کے ذکر سے غافل ہو جاتا ہے تو شیطان وسوسے ڈالنےکی کر اس کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے ( مشکوٰۃ شریف) 

حضرت ابو ہریرەؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جب کوئی مسلمان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ آجاتا ہے پھر اگر وہ توبہ استغفار کر لیتا ہے تو وہ نقطہ اس کے دل پر سے مٹ جاتا ہے۔ اگر وہ گناہ پر مداومت کرتا ہے تو وہ سیاہ نقطہ بھی زیادہ ہو جاتا یے یہاں تک کہ وہ اسکا دل ڈھانپ لیتا ہے ( مشکوۃ شریف) 

مولانا رومؒ طہارتِ قلب اور تزکیہ نفس اور صفائے قلب کی ایک مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ چینیوں اور رومیوں میں مقابلہ ہو گیا چینی کہتے ہیں کہ نقش و نگاری میں ہم ماہر ہیں اور رومی کہتے ہیں کہ اس فن میں ہم جیسا کوئی نہیں۔ بادشاہ وقت نے دونوں کا امتحان لیا۔ اور کہا کہ دونوں اپنے اپنے فن کا کمال دکھاؤ۔ چینیوں نے بادشاہ سے سینکڑوں رنگ و روغن طلب کیے اور پھر بادشاہ وقت نے رومیوں سے پوچھا کہ تمہیں بھی کسی سامان کی ضرورت ہے؟ رومیوں نے کہا کہ ہمیں کسی رنگ و روغن کی ضرورت نہیں۔ ہم صرف زنگ و میل دور کریں گے۔ چنانچہ چینی رومی دو دیواروں پر اپنے فن کا کمال دکھانے لگے۔ درمیان میں ایک پردہ لٹکا دیا۔ چینی تو دیوار پر نقش و نگار بنانے لگے اور رومی دیوار کو صیقل و صاف کرنے لگے۔ رومیوں نے دیوار کو اتنا صاف کیا کہ دیوار شیشے کی طرح چمکنے لگی۔جب دونوں اپنے اپنے کام سے فارغ ہو گئے تو بادشاہ وقت دیکھنے کے لیے آیا تو پہلے چینیوں کے فن کو دیکھا تو ان کی نقش و نگاری کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ پھر رومیوں کی طرف آیا تو درمیان سے پردہ اٹھا دیا۔ بس پھر کیا تھا کہ جو چینیوں کی دیوار پر دیکھا تھا اس سے کہیں بہتر سامنے دیوار پر عیاں تھا۔ مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ مسلمان تو بھی اپنے دل کو اللّٰه کے ذکر سے اس قدر صیقل کر لے کہ وہ شیشے کی طرح چمکنے لگے اور حرص و ہوا اور خواہشاتِ نفسانی کا غبار مٹ جائے، فسوق و فجور کے اندھیرے دور ہو جائیں، گناہ و معصیت کی سیاہی دھل جائے۔ ضلالت اور گمراہی کے بادل چھٹ جائیں اور باطنی حجابات اٹھ جائیں۔ تیرا دل بھی رومیوں کی دیوار کی طرح معرفت کا آئینہ بن جائے۔ انوار و تجلیاتِ اِلٰہی کا مرکز بن جائے۔ اور پھر ساری کائنات تیرے اندر سما جائے اور پھر جدھر بھی دیکھے تجھے جلوہِ حسنِ یار نظر آئے۔ 

‎@Official__NA

Leave a reply