"وباٸیں،خطاٸیں اور دعاٸیں”—از—✍️#اخت_عمیر

0
33

پاکستان ان دنوں وباٶں اور بحرانوں کی زد میں ہے۔ ایک طرف وبائی امراض اپنا قہر برسا رہے ہیں گزرتے وقت کے ساتھ کورونا بے قابو ہوتا جا رہا ہے۔ متاثرین کی تعداد 1لاکھ 32 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور اموات 2500 سے بڑھ چکی ہیں۔ تو دوسری طرف رواں سال کے صرف چند ماہ میں اچانک رونما ہونے والی شدید موسمیاتی تبدیلیوں نے فصلوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ باقی کسر فصلوں پر ٹڈی دل کی یلغار نے پوری کردی ہے۔ دہشت گردی غیر محدود کرپشن اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی صورتحال پہلے ہی گھمبیر تھی۔ کہ کورونا وبا کے ہنگامے اور لاک ڈاون کی سختیوں نے ہماری معاشی مشکلات کو دو چند کر دیا ہے۔ تین ماہ سے جاری لاک ڈاون کے باعث پیداواری عمل معطل ہونے کی وجہ سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ سبزی اور فروٹ مارکیٹ کھلی رہنے کی وجہ سے امید کی جا رہی تھی کہ زرعی معیشت لاک ڈاون کے اثرات سے بچ جائے گی۔ لیکن بے موسمی بارشوں اور اور ٹڈی دل کی یلغار نے فصلوں کو ناقابل یقین حد تک نقصان پہنچایا ہے۔

پاکستان بالخصوص پنجاب کے گندم کی کاشت کے علاقوں ملتان، ڈیرہ غازی خان، لاہور، گجرات، سرگودھا اور فیصل آباد کے علاقوں میں گندم کی کٹائی کے موسم میں ہونے والی بارشوں نے نہ صرف فی ایکڑ گندم کی پیداوار کو نقصان پہنچایا بلکہ سرکاری سطح پر گندم کی خریداری کا ہدف پورا کرنا بھی مشکل ہو گیا اس لیے کٹائی کے موسم میں ہی گندم کے نرخ آسمان سے باتیں کرنے لگے۔۔

محکمہ موسمیات کے مطابق گندم کی کٹائی کا موسم آتے ہی گرمی کی شدت میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ عموماً گندم کی کٹائی اور اسے سمیٹنے کا موسم خشک ہی رہتا ہے۔ گذشتہ دو سال سے عین کٹائی کے موسم میں شدید بارشیں ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ جس سے فصلوں کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔

پاکستان کسان اتحاد کے سیکرٹری جنرل عمیر مسعود کے مطابق پنجاب کے بیشتر علاقوں میں فی ایکڑ پیداوار 50 سے 60 من کے درمیان ہوتی ہے۔ بے موسمی بارشوں کے باعث یہ کم ہو کر 30 سے 33 من رہ گئی جس سے رواں برس گندم اور آٹے کے بحران کا شدید خدشہ ہے۔ کپاس کی ڈیڑھ لاکھ بیلوں میں سے صرف 90 لاکھ بیلیں حاصل ہو سکیں مزید برآں مکئی کی پیداوار میں 40 فیصد اور چاول کی پیداوار میں 50 فیصد کمی ہو گئی ہے۔ بھکر جو کہ چنے کی کاشت اور پیداوار کے لیے دنیا بھر میں مشہور تھا بے موسمی بارشوں اور ژالہ باری نے اس فصل کو بھی تباہ کر دیا صرف کپاس کی بیلوں کی کم پیداوار کی وجہ سے ہونے والا نقصان ایک ارب ڈالر ہے۔ کسان بارشوں کے اس سلسلے کی وجہ سے شدید پریشان تھے کہ ایک اور بحران ٹڈی دل کی صورت میں پاکستان میں داخل ہو گیا یہ ٹڈی دل زراعت کے میدانوں پر اس قدر شدت سے حملہ آور ہوٸی کہ قحط کا خدشہ پیدا ہو گیا۔

ٹڈی جمع ٹڈیوں کو عربی میں الجراد کہا جاتا ہے اور واحد کے لیےجَرَادَةٌ کا لفظ استعمال ہوتا ہےاس لفظ کا استعمال نر اور مادہ دونوں کے لیے ہوتا ہے۔ ٹدی دل ہجرت کرنے والا کیڑا ہے جو غول کی شکل میں ہجرت کرتا ہے ایک غول کئی لاکھ ٹڈیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

ایک ٹڈی ایک وقت میں 1200 انڈے دیتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے خوراک کے مطابق اگر ان کو قابو نہ کیا گیا تو ان کی تعداد میں 20 سے 25 فیصد اضافہ ہو سکتاہے۔
ٹڈی حشرات الارض میں سے فصلوں کو نقصان پہنچانے والی بے رحم اور خوفناک قسم ہے۔ یہ انتہائی منظم طریقے سے کسی تربیت یافتہ فورس کی طرح کھیتوں پر حملہ آور ہوتی ہیں اور کھیت کے ایک سرے سے داخل ہو کر دوسرے سرے تک پہنچتے ہوئے سارا کھیت اجاڑ دیتی ہیں یہ ایک دن میں 93.2 میل کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے چھال سے بیجوں اور پھولوں تک سب کچھ کھاتی ہیں۔اور اپنے پیچھے تباہی و بربادی کی ایک داستان چھوڑ جاتی ہیں۔

ایک غول 35 ہزار انسانوں کی خوراک ایک دن میں کھا سکتا ہے۔ٹڈی دل کا انڈے دینے کا طریقہ بھی عجیب ہوتا ہے یہ انڈے دینے کے لیے سخت اور بنجر زمین کا انتخاب کرتی ہیں پھر اس زمین میں اپنی دم سے انڈے کے سائز کے برابر سوراخ کرتی ہیں۔ جس میں وہ انڈے دیتی ہیں۔ اس لیے یہ سپرے کے باوجود بھی دوبارہ افزائش کر جاتی ہیں کیونکہ زمین کی سطح پر کیا جانے والا سپرے زمین کے اندر موجود انڈوں پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ زمین کی گرمی سے ہی انڈوں سے ٹڈیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور جھنڈ بنا کر فصلوں پر حملہ آور ہو جاتی ہیں۔

اپریل اور مئی میں جس وقت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں کپاس اور اور چاول کی کاشت اور گرمیوں کے میوہ جات خاص کر آم کے درخت پھل دے رہے ہوتے ہیں عین اسی موسم میں ٹڈی دل افریقہ سے یمن اور پھر سعودی عرب اور پھر عمان سے ایران اور وہاں سے پاکستان میں ایک خاموش قاتل اور دہشتگرد تنظیم کی شکل میں داخل ہوا اور یلغار کر کے چاول اور کپاس کی فصلوں اور اور میوہ جات کے وسیع باغ اجاڑ دیے۔ پنجاب کے میدانی علاقوں میں آم کے باغوں کے علاوہ جنوبی وزیرستان میں آلو بخارہ، آڑو،آلوچہ اور خرمانی کے باغ بھی ٹڈی دل کے حملوں سے نا بچ سکے۔

ٹڈی دل چاروں صوبوں کے 60 اضلاع میں بڑی مقدار میں فصلوں کو کھا چکے ہیں۔ ان علاقوں میں بیشتر کسان یہ سمجھ رہے تھے کہ غیر موسمی بارشوں سے ہونے والے نقصان کو وہ کپاس کی فصل اگا کر پورا کر لیں گے مگر جیسے کپاس کے پتے نمودار ہوئے ٹڈی دل ان پر حملہ آور ہو گیا۔ ٹڈی دل نے تین سو ہزار مربع کلو میٹر علاقے کو متاثر کیا جو مملکت کے کل رقبہ کا 37 فیصد بنتا ہے۔

اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان کے زراعت کے 38فیصد شعبے کیڑوں کی افزائش کے میدان ہیں۔ عالمی ماہرین نے پاکستان کو متنبہ کیا ہے کہ اگر ٹڈی دل کو روکنے کا بندوبست نہ ہوا تو تھرپارکر سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک پھیلے ہوئے وسیع رقبوں میں لگائی گئی فصلیں تباہ و برباد ہو جائیں گی۔اگر ٹڈی دل ربیع کی فصل کو 25 فیصد نقصان پہنچاتی ہے تو 400 ارب کا نقصان ہوگا اور فصل خریف کی صورت میں 600 ارب نقصان ہو گا اور 50 فیصد نقصان ہونے پر فصل ربیع کی صورت میں 700 ارب اور خریف کی صورت میں 900 ارب سے زائد نقصان کا خدشہ ہے۔

ٹڈیوں نے پہلے ہی ملک بھر میں روئی، گنے اور سبزیوں کی فصلوں کو تباہ کر دیا ہے اگر یہ سبزیوں کی فصلوں پر بھی حملہ آور ہوتی ہیں۔ تو تباہی کی مقدار کئی گنا زیادہ ہو جائے گی۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے زراعت پاکستان کی جی ڈی پی کا 20 فیصد ہے اور ٹڈیوں کے نقصان سے جون میں ختم ہونے والے مالی سال میں پاکستان کی معاشی نمو دو فیصد سے بھی کم ہونے کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔

محکمہ تحفظ نباتات کے ڈائریکٹر جنرل فلک ناز نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس سال ٹڈیوں سے فصلوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔پاکستان میں ٹڈی دل کا حملہ اس قدر شدید ہے کہ پاکستان نے ریاستی سطح پر اس حوالے سے فروری 2020 میں قومی ہنگامی صورتحال کا اعلان کر کے ٹڈی دل کے خلاف ریاستی جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ ریاستی سطح کی ایمرجنسی ایک انتہائی اہم اقدام ہوتا ہے۔ جو قومی سطح کے کرائسز میں اٹھایا جاتا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہ پاکستان میں ٹڈی دل کا حملہ کس قدر بھیانک اور خطرناک ہے۔

جس طرح کورونا کی وبا انسانیت کے لیے وبال بنی ہوئی ہے اسی طرح ٹڈی دل بھی انسانیت کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں کسانوں کے نائب صدر محمود نواز شاہ نے کہاکہیہ ٹڈی حملہ کورونا وائرس سے بڑا خطرہ ہے اگر آپ گھر میں رہ کر حفاظتی تدابیر اختیار کر لیں تو وائرس حملہ نہیں کرے گا لیکن بھوک آپکو کسی بھی طرح ہلاک کر دے گی

اقوام متحدہ کے ادارے برائے خوراک اور زراعت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اور ایگریکلچرل ورکنگ گروپ کے اسسٹنٹ کوآرڈینیٹر حبیب وردگ کے بقول پاکستان کے 34 اضلاع ایسے ہیں جن میں 40 فیصد لوگ شدید غذائی تحفظ یا درمیانے درجے کے غذائی تحفظ کا شکار ہیں لیکن اب معاملہ مزید سنگین ہو گیا ہے کیونکہ ٹڈی دل انسانوں اور مویشیوں کی خوراک کے علاوہ قدرتی چرا گاہوں پر بھی حملہ آور ہیں جس سے شدید غذائی بحران پیدا ہو سکتا ہےکیا کبھی سوچا ہم نے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم ایک آفت سے تو ابھی چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے کہ نئی آفت کا شکار ہو جاتے ہیں؟؟؟ ایک طرف کورونا کی وبا ہمارے لیے وبال جان بنی ہوئی ہے تو دوسری طرف ٹڈیوں کے غول فصلوں کو اجاڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے بھوک اور خوف کے سائے منڈلا رہے ہیں۔۔۔ہم سے وہ کون کون سے گناہ سرزد ہوئے کہ اللہ تعالی کی رحمت ہم سے روٹھ چکی ہے؟؟

ہم نے اللہ تعالی کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی فلموں کے تھیٹروں میں ہم جاتے رہے، نمازوں کو ضائع ہم کرتے رہے، سودی لین دین ہم کرتے رہے، یتیموں کامال ہڑپ کرنا ہمارے معاشرے میں عام گناہ بن گیا فحاشی کے پروگرام ہم چلاتے رہے۔

ان حالات میں ہم پر اللہ تعالی کی رحمت کا نزول ہو تو کیسے ہو؟؟ ایک طرف کشمیر میں ہندو بنیے نے دنیا کا بدترین کرفیو مسلط کیا لیکن عالم اسلام خواب غفلت میں مدہوش رہا۔کشمیر میں روز جنازے اٹھتے رہے معصوم بچے یتیم ہوتے رہے۔سہاگنوں کے سہاگ لٹتے رہے بہنیں اپنے بھائی اسلام اور پاکستان پرقربان کرتی رہیں مسلمان بیٹیوں کی عصمتیں پامال ہوتی رہیں دوسری طرف انڈین اداکار ہماری نوجوان نسل کے آئیڈیل بنے رہے اور انڈین فحش فلمیں ڈرامے اور گانے زندگی موت کا سوال مسلمان ممالک نے بھی اپنی اپنی معیشت کو بچانے کی خاطر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی پاکستان بھی چند مذمتی بیانات سے آگے نا بڑھ سکا یہاں تک کہ مظلوموں کی آہوں نے عرش الہی ہلا دیا اور خواب خرگوش کے مزے لوٹتی ہوئی دنیا خود کورونا وائرس کا شکار ہو کر لاک ڈاون کی مصیبت میں پھنس گئی اور وہ معیشت تہس نہس ہو گئی جس کو بچانے کے لیے ظلم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی ایسا محسوس ہوا جیسے اللہ رب العزت سوال کر رہے ہوں کہ کہاں گئی اب تمھاری معیشت جس کو بچانے کے تم نے قرآن پاک کی آیات سے منہ موڑا؟؟

کاش کہ ہم اس وقت ہی سمجھ جاتے اور توبہ کا راستہ اختیار کر لیتے لیکن افسوس ہم نے اللہ تعالی کی پکڑ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود بھی اصلاح اور محاسبے کا راستہ نہیں اپنایا بلکہ کورونا وائرس کو ڈرامہ اور سازش کہنا شروع کر دیا ہم نے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ یہ سازش کامیاب کیسے ہو گئی ہمیں قرآن پاک کی آیت یاد نہیں رہی
مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ
کوئی مصیبت نہیں پہنچتی مگر اللہ تعالی کے اذن سے
"سورہ التغابن آیت نمبر11”

اور ہم حفاظتی تدابیر اختیار کرنے اور کورونا وائرس سے لڑ کر اس کو شکست دینے کی باتیں کرنے لگے۔۔ ہم بھول گئے حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کا قصہ جس نے عذاب کو آنکھوں سے دیکھ کر بھی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت نوح علیہ السلام کی اسلام کی دعوت دینے پر کہا کہ میں اس پہاڑ پر چڑھ کے بچ جاوں گا اور اللہ تعالی کے غضب کو دعوت دی اور عبرت کا نشان بن گیا ۔۔۔سوچیے اپنے آپ سے سوال کیجئے کیا ہم بھی اس نافرمان اور اور مشرک بیٹے کا عمل نہیں دھرا رہے تھے؟؟ کیا ہم بھی اپنی نافرمانی کے ذریعے اللہ تعالی کو نہیں للکار رہے تھے؟

ہم نے اللہ تعالی کے غضب کو خود دعوت نہیں دی؟ ہماری ان اجتماعی نافرمانیوں کی وجہ سے ہم پر بے موسمی بارشوں اور ٹڈیوں کی مصیبت مسلط کر دی گئی اور اب قحط کے خوف سے پوری قوم پریشان ہے۔۔

سوچ لینا چاہیے اگر یہ آفات سازش ہیں تو سازش کامیاب ہو چکی ہے۔ اگر وبا ہیں تو اثر انداز ہو چکی ہے اور اگر بلاء ہیں تو ہمارے سر پر آ چکی ہیں اور ان سے نجات کا واحد حل رجوع الی اللہ ہے۔۔
توآئیے ہم پلٹ آئیں نماز کے راستے کی طرف، استغفار کے راستے کی طرف، توکل کے راستے کی طرف، صبر کے راستے کی طرف، توبہ کے راستے کی طرف، انابت الی اللہ کے راستے کی طرف، یہ راستے کھلے ہیں اگر ہم ان راستوں کے ذریعے پناہ طلب کریں تو اللہ تعالی بیماریوں کو مٹا دے آفات کو دور فرما دے گا ان شآءاللہ

اللہ تعالی سے دعا ہے بیشک ہم گناہگار ہیں خطا کار ہیں لیکن آپکی طرف رجوع کرتے ہیں ہمیں اس آفت سے بچا لے یہ ہمارے لیے عذاب نا بنا اور ہمیں اس سے نجات دے دے۔۔۔۔۔۔۔
آمییین یارب العالمین🤲
====================

"وباٸیں،خطاٸیں اور دعاٸیں”

✒️✍️تحریر=”اخت عمیر”

Leave a reply