پلاسٹک بیگز سے چھٹکارہ کس صورت ممکن ہے!!! تحریر: نعمان علی ہاشم

0
38

قارئین کرام ہم نے جس دور میں ہوش سنبھالا وہ دور کپڑے کے تھیلوں کا آخری دور تھا. کانچ کی پراڈکٹ پلاسٹک میں تبدیل ہو رہی تھیں. مٹی اور چینی کے برتنوں کی جگہ میلامائن کے برتن لے رہے تھے. ابتدائی زمانے میں ہم نے اسے نعمت جانا، برتنوں کے وزن سے جان چھوٹی، کپڑے کے تھیلے کی جگہ شاپر آیا. مجھے یاد ہے جب نئے نئے گوجرانوالہ شفٹ ہوئے تو شاپر میں دودھ دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی. کیونکہ ہمارا عقیدہ بن چکا تھا کہ دودھ ڈول میں لایا جاتا اور پتیلی میں اوبالا جاتا ہے. دہی جمانے کے لیے مٹی کی چاٹی یا سلور کی گاگر ہوتی تھی. دیکھتے ہی دیکھتے مٹی کے کنڈوں کی جگہ سٹیل نے لے لی.. فریج کی بہتات ہوئی تو مٹی کے گھڑے گئے اور پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی یخ کیا جانے لگا. دیکھتے ہی دیکھتے پانچ سات سالوں میں ایک پوری ثقافت کو لپیٹ کر ہم نے جدت سے لعنت خاص اٹھا کر منہ پر مل لی..

.
ماضی کے ایک واقعے کو یاد کروا کر بات آگے چلاتے ہیں.. ماضی میں پہلے تمباکو اور چائے کو عام کیا گیا. اور جب لوگ عادی ہونے لگے تو ان کے مضمرات سامنے آنے لگے.
.
پلاسٹک پراڈکٹس کے چند سالہ استعمال کے بعد جب لوگوں میں یہ چیز سرایت کر گئی تو اس کے مضمرات عوام کے سامنے لائے جانے لگے. میڈیا کی آزادی کے بعد ہمیں اسی کے توسط سے معلوم ہوا کہ یہ پراڈکٹس ہماری صحت کے لیے کس قدر نقصان دہ ہیں. مگر زہر رگوں سرایت کر چکا تھا. اب ہم اس سے جان چھڑوانے سے رہے. اور ظاہری سے بات ہے کہ جب انسان رنج میں راحت محسوس کرنے لگے تو اسے خوشی کی حاجت ہی کیا؟
یہ تو ہو گئی تمہید. اب چلیے زرا مدعے پر.. ہم پچھلے پانچ سال سے اکثر و بیشتر جگہ اس بات کا اظہار کرتے رہے کہ اس پلاسٹک کو ختم ہونا چاہیے، یہ زندگی نگل رہا ہے. اور اس میں کوئی دو رائے بھی نہیں. ماضی میں بھی حال کی طرح کوششیں ہوتی رہیں مگر کچھ عرصہ بعد یہ شور ختم ہوتا اور پلاسٹک ہماری زندگیوں میں زندگیاں تباہ کرنے کے لیے چلتا رہا.
خیر حالیہ چند دنوں کے اقدامات دیکھ کر میں نے مناسب سمجھا کہ آپ لوگوں کو اس مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کر دوں.
یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ آپ گراونڈ سیٹ کیے بغیر شریعت بھی نافذ کریں گے تو نقصان آپکا ہی ہوگا. اس کے لیے لازم ہے قوم کی اخلاقی و اسلامی تربیت، جمہور کا صالح ہونا، گرد و پیش کے سازشی عناصر کے مقابل ڈٹ جانے کی قوت ہونا. جس طرح سب سے افضل کام آپ گراونڈ سیٹ کیے بغیر نہیں کر سکتے اسی طرح چھوٹے سے چھوٹا کام بھی گراونڈ سیٹ کیے بغیر نہیں کیا جا سکتا.
خیر بات یہ ہے کہ
انٹرنیشنل ہیلتھ آرگنائزیشنز کے مطابق عصر حاضر میں 35 فیصد بیماریوں کی وجہ یہ پلاسٹک ہے. کمال یہ ہے کہ اسی پلاسٹک کے مضمرات میں کینسر جیسی بیماری بھی ہے. ہیپاٹائٹس اور جلدی امراض کی طویل لسٹ، اس سے زیادہ حیران کن بات یہ کہ اس پلاسٹک نے پچھلے بیس سالوں میں 18 فیصد آبی مخلوق کو سرے سے ختم کر دیا.
اور صرف پاکستان کی بات کریں تو دریائے راوی میں آبی مخلوق کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے. مچھلیاں تو ایک طرف اب تو مینڈک بھی اس شاپر کی موت مر رہے ہیں. یہاں نالوں اور شہروں کا گندہ پانی پھینک کر پلاسٹک کئی فٹ موٹی تہہ بنا دی گئی ہے جو اگلے دو سو سال تک بھی مٹی میں نہیں ملے گی. یعنی اگلے تو سو سال کے لیے زندگی ناپید..
.
ان برتوں میں ٹھنڈا گرم کرنے کی بیماریاں، ان میں صفائی کے بعد بھی جراثیم کی افزائش، اور تو اور اگر ان برتنوں کو ابالا جائے تو اندر سے مزید جراثیم زندہ ہو کر انسانی صحت کا نقصان کرتے ہیں.
اس پلاسٹک کے عمل دخل کی بات کی جائے تو بچے کے منہ میں لگی چوسنی سے لے کر، 80 سالہ بابے کی چارپائی تک پلاسٹک کی بنی ہے.
اب سوال یہ ہے کہ اس سے جان کیسے چھڑائی جائے؟
ایک بات ذہن میں رکھیں اب اس پلاسٹک سے جان چھڑوانا ناممکنات میں سے ہے. البتہ اس کا استعمال 80 فیصد تک روکا جا سکتا ہے. اور یہ ہماری نسلوں کی بقا کے لیے کافی ہوگا.
سب سے پہلی بات آگاہی، لوگوں کو جہاں پلاسٹک کے مضمرات بتانے کی ضرورت ہے وہیں کپڑے، شیشے اور مٹی کی فضیلت پر بھی لیکچرز دینے کی ضرورت ہے.
.
جس چیز کو رائج کرنا ہے اسے فیشن بنا دیں. شوبز، میڈیا کھلاڑی سب مل کر اس کو پروموٹ کریں.
.
دوسرا اہم کام یہ کریں کہ پلاسٹک بنانے والی فیکٹریوں کو کپڑے یا ایسے میٹیریل کے بیگ بنانے کے لیے فنڈز جاری کریں جو ماحول اور انسان دوست ہوں. تاکہ وہ ہنسی خوشی قوم کے لیے یہ خدمات سرانجام دیں
.
شہروں کے کوڑے کی ریفائنگ پر کام کریں. تمام پلاسٹک پگلا کر ایسی پراڈکٹس بنائیں جو دوبارہ مارکیٹ میں چلتی رہیں اور وہ چیزیں زمین یا پانی کی نذر نہ ہوں.
.
شاپر کا ریٹ بڑھا دیں، اور اسے کباڑ میں خریدنے اور بیچنے کی تجویز دیں. یوں پلاسٹک میٹیریل گلیوں نالیوں میں نہیں جائے گا. گھر کی خواتین ان بیگز کو سنبھال کر رکھیں. جس طرح لوہا، لیلن، سوکھی روٹیاں اور ہیل والی جوتیاں خراب ہو جانے کے بعد بھی سنبھالی جاتی ہیں. اور کباڑیے کو بیچ کر پیسے کمائے جاتے ہیں. اسی طرح استعمال شدہ پلاسٹک شاپر بھی بیچے اور خریدے جائیں
.
جب آپ یہ تمام اقدامات کر لیں گے تو پھر پلاسٹک بیچنے والوں کی باری آئے گی. اب یہاں پر بھی بتا دوں کہ اگر آپ مافیاز کو پکڑ نہیں سکتے تو آپ محض بوتل اور شاپر پر بھی یہی لکھ سکیں گے.. "خبردار..! پلاسٹک کا استعمال کینسر کا باعث ہے”
جس طرح آپ سگریٹ پر ٹیکس لگا کر عام آدمی کے لیے اسے مشکل کر کے سمجھ رہے ہیں کہ تمباکو نوشی ختم ہو جائے گی اسی طرح شاپر کا معاملہ ہو گا. جس طرح سگریٹ جن کو لگ چکا ہے، ان کے لیے انتباہ، اور ٹیکس کوئی مسئلہ نہیں بلکہ آپ دن بہ دن تباکو بیچنے والوں کی کمائی میں اضافہ کر رہے ہیں. اسی طرح شاپر کے معاملے میں ہوگا. لوگ جس آسائش کے پیچھے چل پڑے ہیں، وہ چار پانچ روپے زیادہ خرچنے کو ترجیح دیں گے.
.
یہاں ایک بات یاد رکھیں کہ آجکل مارکیٹ میں مختلف اقسام کے بیگز آ رہے ہیں، جنہیں ماحول دوست ثابت کر کے مارکیٹنگ کی جا رہی ہے. مگر یہ بیگز کسی صورت بھی پلاسٹک بیگز جتنے فنگشنل نہیں. پلاسٹک بیگ میں آپ بہت سے اقسام کا میٹیریل ڈال سکتے ہیں. جبکہ ان بیگز میں مخصوص طرح کا میٹیریل ڈل سکتا ہے.
یعنی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اپنی فنگشنلیٹی کے اعتبار سے بھی پلاسٹک بیگ کا کوئی ثانی نہیں.
.
عوام کو بھی چاہیے کہ ہر ممکن کوشش کرے کہ جہاں تک اس پلاسٹک بیگ سے بچ سکتی ہے بچے. جو پراڈکٹس کسی دوسری چیز میں لائی جا سکتی ہیں، ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں میں اسی چیز کو شاپر میں لانے سے پرہیز کریں. دودھ، دہی سالن جیسی پراڈکٹس کے لیے برتن. اور خشک پراڈکٹس کے لیے کپڑے کے تھیلے استعمال کریں. آپ سیدھی راہ پر ہونگے تو ملک بھی سیدھی راہ پر ہوگا. ٹھیک ہے پالیسیاں سرکار نے بنانی ہیں. مگر آپ کو اپنی جانب سے اقدامات کرنے پر کوئی روک نہیں. آپ خود باز آئیں اور اپنے جاننے والوں کو پلاسٹک سے پرہیز کا مشورہ دیں. اگر ہم بحیثیت قوم کسی نیک مقصد کے لیے خود کو پیش کر دیں تو یہ مافیاز خود بخود بھاگ جائیں گے. جنہوں نے ملک پاکستان کے سسٹم کو ہائی جیک کیا ہوا.

Leave a reply