کتاب آرزو کے گم شدہ کچھ باب رکھے ہیں
ترے تکیے کے نیچے بھی ہمارے خواب رکھے ہیں
نام غلام محمد قاصر اور قاصر تخلص ہے۔ 04 ستمبر 1941ء کو پہاڑپور(ڈیرہ اسماعیل خاں) میں پیدا ہوئے۔ 1958ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ پہلے اپنے طور پر فاضل اردو اور پھر ایم اے (اردو) کے امتحانات پاس کیے۔ میٹرک کے بعد ٹیچر کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔ 1975ء سے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج مردان میں شعبۂ اردو سے وابستہ رہے۔ 20 فروری 1999ء کو پشاور میں انتقال کرگئے۔ ان کا مجموعۂ کلام ’’تسلسل‘‘ کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔ ان کی دیگر تصانیف کے نام یہ ہیں: ’’دریائے گمان‘‘، ’’آٹھواں آسمان بھی نیلا ہے‘‘۔ انھیں صدارتی ایوراڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:353
متفرق اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
کتاب آرزو کے گم شدہ کچھ باب رکھے ہیں
ترے تکیے کے نیچے بھی ہمارے خواب رکھے ہیں
بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو
یہ بھی اک رنگ ہے شاید مری محرومی کا
کوئی ہنس دے تو محبت کا گماں ہوتا ہے
یاد اشکوں میں بہا دی ہم نے
آ کہ ہر بات بھلا دی ہم نے
تری آواز کو اس شہر کی لہریں ترستی ہیں
غلط نمبر ملاتا ہوں تو پہروں بات ہوتی ہے
تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتا
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے
ارادہ تھا جی لوں گا تجھ سے بچھڑ کر
گزرتا نہیں اک دسمبر اکیلے
بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا
وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا
گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے گھر کا سناٹا کہتا ہے
اس شہر کا ہر رہنے والا کیوں دوسرے شہر میں رہتا ہے
وفا کے شہر میں اب لوگ جھوٹ بولتے ہیں
تو آ رہا ہے مگر سچ کو مانتا ہے تو آ
کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا
اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا
کوئی منہ پھیر لیتا ہے تو قاصرؔ اب شکایت کیا
تجھے کس نے کہا تھا آئنے کو توڑ کر لے جا
اب اسی آگ میں جلتے ہیں جسے
اپنے دامن سے ہوا دی ہم نے
ہم نے تمہارے غم کو حقیقت بنا دیا
تم نے ہمارے غم کے فسانے بنائے ہیں
پیار گیا تو کیسے ملتے رنگ سے رنگ اور خواب سے خواب
ایک مکمل گھر کے اندر ہر تصویر ادھوری تھی
آیا ہے اک راہ نما کے استقبال کو اک بچہ
پیٹ ہے خالی آنکھ میں حسرت ہاتھوں میں گلدستہ ہے
پہلے اک شخص میری ذات بنا
اور پھر پوری کائنات بنا
ہم تو وہاں پہنچ نہیں سکتے تمام عمر
آنکھوں نے اتنی دور ٹھکانے بنائے ہیں
خوشبو گرفت عکس میں لایا اور اس کے بعد
میں دیکھتا رہا تری تصویر تھک گئی
ہر بچہ آنکھیں کھولتے ہی کرتا ہے سوال محبت کا
دنیا کے کسی گوشے سے اسے مل جائے جواب تو اچھا ہو
دن اندھیروں کی طلب میں گزرا
رات کو شمع جلا دی ہم نے
محبت کی گواہی اپنے ہونے کی خبر لے جا
جدھر وہ شخص رہتا ہے مجھے اے دل! ادھر لے جا
گلابوں کے نشیمن سے مرے محبوب کے سر تک
سفر لمبا تھا خوشبو کا مگر آ ہی گئی گھر تک
سوچا ہے تمہاری آنکھوں سے اب میں ان کو ملوا ہی دوں
کچھ خواب جو ڈھونڈتے پھرتے ہیں جینے کا سہارا آنکھوں میں
سب سے اچھا کہہ کے اس نے مجھ کو رخصت کر دیا
جب یہاں آیا تو پھر سب سے برا بھی میں ہی تھا
ہزاروں اس میں رہنے کے لیے آئے
مکاں میں نے تصور میں بنایا تھا
وہ لوگ مطمئن ہیں کہ پتھر ہیں ان کے پاس
ہم خوش کہ ہم نے آئینہ خانے بنائے ہیں
بیاباں دور تک میں نے سجایا تھا
مگر وہ شہر کے رستے سے آیا تھا
ہر سال کی آخری شاموں میں دو چار ورق اڑ جاتے ہیں
اب اور نہ بکھرے رشتوں کی بوسیدہ کتاب تو اچھا ہو
کہتے ہیں ان شاخوں پر پھل پھول بھی آتے تھے
اب تو پتے جھڑتے ہیں یا پتھر گرتے ہیں
ہر سال بہار سے پہلے میں پانی پر پھول بناتا ہوں
پھر چاروں موسم لکھ جاتے ہیں نام تمہارا آنکھوں میں
ہجر کے تپتے موسم میں بھی دل ان سے وابستہ ہے
اب تک یاد کا پتا پتا ڈالی سے پیوستہ ہے
نام لکھ لکھ کے ترا پھول بنانے والا
آج پھر شبنمیں آنکھوں سے ورق دھوتا ہے
جن کی درد بھری باتوں سے ایک زمانہ رام ہوا
قاصرؔ ایسے فن کاروں کی قسمت میں بن باس رہا
جس کو اس فصل میں ہونا ہے برابر کا شریک
میرے احساس میں تنہائیاں کیوں بوتا ہے
اس طرح قحط ہوا کی زد میں ہے میرا وجود
آندھیاں پہچان لیتی ہیں بہ آسانی مجھے
امید کی سوکھتی شاخوں سے سارے پتے جھڑ جائیں گے
اس خوف سے اپنی تصویریں ہم سال بہ سال بناتے ہیں
زمانوں کو اڑانیں برق کو رفتار دیتا تھا
مگر مجھ سے کہا ٹھہرے ہوئے شام و سحر لے جا
سایوں کی زد میں آ گئیں ساری غلام گردشیں
اب تو کنیز کے لیے راہ فرار بھی نہیں