پولیس گردی اور ہمارا ملک — انیس الرحمن

0
52

ہمارے معاشرے میں پولیس کا عمومی تصور دھیڑی دار اور عوام کو لوٹنے والوں کا پایا جاتا ہے اور آئے روز ہونے والے واقعات اس تصور کو گہرے سے گہرا کرتے جاتے ہیں۔

پولیس کہیں بھی ناکہ لگا کر کھڑی ہو تو آپ دو صد فیصد فیصد یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ آپ کی حفاظت کیلئے نہیں بلکہ آپ کو لوٹنے کیلئے اور مال بٹورنے کیلئے کھڑی ہے۔ آپ قائدِ اعظم والا سلام کر کے وہاں اس ناکہ سے بھلے اسلحہ سے بھرا ٹرک لیکر گزر جائیں۔

چلیں اس حد تک تو لوٹنا برداشت کر ہی لیتے ہیں ہم کہ چلو غریب لوگ ہیں بچوں کا پیٹ پالنا ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں تنخواہ میں کہاں گزارا ہوتا ہے بھئی اوپر کی آمدنی بھی تو ضروری ہے نا۔۔۔
لیکن ہم من حیث القوم بے حس اس قدر ہو چکے ہیں کہ ان واقعات کا باعث ہم ہی ہیں ہاں آج اس صلاح الدین کی قاتل پنجاب پولیس نہیں ہماری بے حسی ہے۔۔۔
ہاں ہم وہ قوم ہیں کہ جو جوتے تو کھانا گوارا کرتی ہے جوتے پڑنے پر احتجاج یا شکایت نہیں کرتی بس احتجاج یا شکایت اس وقت کرتی ہے کہ جب جوتے لگانے والے کم ہوں اور لائن میں لگ کر کر وقت ضائع ہوتا ہو تو پھر ہم حاکم سے کہتے ہیں کہ بھلے پچاس کی بجائے سو جوتے مار لو لیکن مارنے والوں کی تعداد بڑھا لو ہمارا وقت بہت ضائع ہوتا ہے لمبی قطاروں میں لگ کے۔۔۔۔

ہاں ہم اس واقعہ پر بھی احتجاج اس لیے کر رہے ہیں کہ جوتے مارنے والے کم ہیں ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے۔۔۔ ہاں جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھ جائیگی تو ہم پھر سے چین کی بانسری بجائیں گے۔۔۔

کیوں کہ اب بھی ہمارا احتجاج ہے کہ اس واقعہ کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے لیکن آج کوئی بھی یہ مطالبہ نہیں کرے گا کہ اس نظام کو اس پولیس گردی کو اس تھانہ کلچر کو اس لٹیروں کے مافیا کو اس کرپٹ ترین شعبہ کو درست کیا جائے ہاں نہیں ہم یہ بات نہیں کرینگے ہم تو کہیں گے بھئی بس جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھا دو۔۔۔

Leave a reply