ایران میں زیرحراست خاتون کی پولیس کے تشدد سے موت "ناقابل معافی” ہے،امریکا

امریکا نے تہران میں "اخلاقی پولیس‘‘ کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد ایک ایرانی خاتون کی موت کو "ناقابل معافی” قرار دے دیا۔

باغی ٹی وی : امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نےاپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ہمیں ایران میں 22 سالہ مہسا امینی کی موت پر گہری تشویش ہے کہا جا رہا ہے کہ اسے ایران کی اخلاقیات کی پولیس نے دوران حراست تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔


جیک سلیوان نے کہا کہ اس کی موت ناقابل معافی ہے ہم انسانی حقوق کی ایسی پامالیوں پر ایرانی حکام کو احتساب کے کٹہرے میں لانے کیلئے کام جاری رکھیں گے۔

واضح رہے کہ تہران میں "اخلاقی” پولیس‘‘ نے حجاب نہ کرنےپر 20 سالہ مہسا امینی پر حملہ کر کے اسے حراست میں لے لیا۔ دوران حراست مہسا کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ خاتون کی حالت بگڑی تو پولیس کو اسے ہسپتال منتقل کرنا پڑ گیا۔

اپنے نامناسب سلوک پر پردہ ڈالتے ہوئے پولیس نے دعویٰ کیا کہ لڑکی کو اچانک دل کی تکلیف ہوئی تھی جس پر اسے فوری طور پر ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔

ذرائع کے مطابق پولیس اہلکاروں نے مہسا امینی کی بگڑتی حالت کو نظر انداز کر دیا تھا۔ دیگر قیدیوں نے احتجاج شروع کر دیا تو پولیس خاتون کو ہسپتال منتقل کرنے پر مجبور ہو گئی۔ ہسپتال میں ڈاکٹروں نے بتایا کہ مہسا کو دل کا دورہ پڑا اور فالج کا حملہ ہوا جو بعد ازاں جاں لیوا ثابت ہوا-

مہسا نے اپنے بھائی کو کہا تھا کہ اسے ایک گھنٹے میں رہا کردیا جائے گا تاہم ایسا نہ ہوا بلکہ وہ خود ہی جسم کی قید سے رہائی پا گئی۔ ہوا یہ تھا کہ پولیس کی حراست میں وہ کوما میں چلی گئی تھی اور اسے بدھ کے روز مکمل دماغی کوما کی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا، وہ تقریباً مردہ ہو چکی تھی۔


تہران میں کسریٰ کے ہسپتال میں ایرانی پولیس کی حراست میں وفات پانے والی مہسا کی بستر پر موجود ایک تصویر وائرل ہونے کے بعد ایرانیوں میں مزید اشتعال پھیل گیااس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مہسا ہسپتال کے بستر پر ہے اور کے سر اور کان پر پٹیاں بندھی ہیں۔ وہ سیدھی لیٹی ہوئی ہے اس کے سر کے بالوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی نے اس کے سر کے بال کھینچے ہیں۔

ایرانیوں نے مہسا امینی جس کا اصل نام جینا امینی تھا کے اہل خانہ کی ویڈیوز بھی شیئر کی ہیں۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کوما میں رہنے کے بعد مہسا کی موت کی خبر سنتے ہی چیخیں اور آہیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔


مہسا پر تشدد کیخلاف احتجاج کے دوران مظاہرین نے ایرانی حکام پر سنگین الزامات عائد کئے اور کہا برسوں سے ہمارے ملک میں خواتین کے متعلق جابرانہ قوانین نافذ کرکے انہیں قتل کیا جارہا ہےمظاہرین نے کہا آیت اللہ خانہ ای نے ہماری بہن کو مار ڈالا ہے۔ یہ حکومت داعش جیسی ہے۔ مظاہرین نے آمر کی موت کے نعرے بھی لگائے۔

واضح رہے کہ مہسا کی موت سے کچھ روز قبل 16 اگست 2022 کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے خواتین کیلئے لباس کی پابندی کے قانون کی خلاف ورزی پر سخت سزاؤں کے حکم نامے پر دستخط کئے تھے۔

یہ حکمنامہ بھی 12 جولائی کو ’’یوم حجاب اور عفت‘‘ کے اعلان کے بعد ملک بھر میں درجنوں خواتین کی گرفتاری کے بعد سامنے آیا تھا۔ ان گرفتار ہونے والی خواتین میں اداکارہ سیبیدہ راشنو بھی شامل تھیں۔

Comments are closed.