ایران میں زیرحراست خاتون کی پولیس کے تشدد سے موت "ناقابل معافی” ہے،امریکا
امریکا نے تہران میں "اخلاقی پولیس‘‘ کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد ایک ایرانی خاتون کی موت کو "ناقابل معافی” قرار دے دیا۔
باغی ٹی وی : امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نےاپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ہمیں ایران میں 22 سالہ مہسا امینی کی موت پر گہری تشویش ہے کہا جا رہا ہے کہ اسے ایران کی اخلاقیات کی پولیس نے دوران حراست تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
Islamic Republic killed this woman to enforce hijab.
After days in a coma, source said “Mahsa Amini, 22, died today”.
She was beaten up by morality police because of wearing “bad hijab”.
Iranian women are outraged. Forced hijab is the main pillar of religious dictatorship. pic.twitter.com/51EyYwB8iX
— Masih Alinejad 🏳️ (@AlinejadMasih) September 16, 2022
جیک سلیوان نے کہا کہ اس کی موت ناقابل معافی ہے ہم انسانی حقوق کی ایسی پامالیوں پر ایرانی حکام کو احتساب کے کٹہرے میں لانے کیلئے کام جاری رکھیں گے۔
واضح رہے کہ تہران میں "اخلاقی” پولیس‘‘ نے حجاب نہ کرنےپر 20 سالہ مہسا امینی پر حملہ کر کے اسے حراست میں لے لیا۔ دوران حراست مہسا کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ خاتون کی حالت بگڑی تو پولیس کو اسے ہسپتال منتقل کرنا پڑ گیا۔
اپنے نامناسب سلوک پر پردہ ڈالتے ہوئے پولیس نے دعویٰ کیا کہ لڑکی کو اچانک دل کی تکلیف ہوئی تھی جس پر اسے فوری طور پر ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق پولیس اہلکاروں نے مہسا امینی کی بگڑتی حالت کو نظر انداز کر دیا تھا۔ دیگر قیدیوں نے احتجاج شروع کر دیا تو پولیس خاتون کو ہسپتال منتقل کرنے پر مجبور ہو گئی۔ ہسپتال میں ڈاکٹروں نے بتایا کہ مہسا کو دل کا دورہ پڑا اور فالج کا حملہ ہوا جو بعد ازاں جاں لیوا ثابت ہوا-
مہسا نے اپنے بھائی کو کہا تھا کہ اسے ایک گھنٹے میں رہا کردیا جائے گا تاہم ایسا نہ ہوا بلکہ وہ خود ہی جسم کی قید سے رہائی پا گئی۔ ہوا یہ تھا کہ پولیس کی حراست میں وہ کوما میں چلی گئی تھی اور اسے بدھ کے روز مکمل دماغی کوما کی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا، وہ تقریباً مردہ ہو چکی تھی۔
Islamic Republic killed this woman to enforce hijab.
After days in a coma, source said “Mahsa Amini, 22, died today”.
She was beaten up by morality police because of wearing “bad hijab”.
Iranian women are outraged. Forced hijab is the main pillar of religious dictatorship. pic.twitter.com/51EyYwB8iX
— Masih Alinejad 🏳️ (@AlinejadMasih) September 16, 2022
تہران میں کسریٰ کے ہسپتال میں ایرانی پولیس کی حراست میں وفات پانے والی مہسا کی بستر پر موجود ایک تصویر وائرل ہونے کے بعد ایرانیوں میں مزید اشتعال پھیل گیااس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مہسا ہسپتال کے بستر پر ہے اور کے سر اور کان پر پٹیاں بندھی ہیں۔ وہ سیدھی لیٹی ہوئی ہے اس کے سر کے بالوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی نے اس کے سر کے بال کھینچے ہیں۔
ایرانیوں نے مہسا امینی جس کا اصل نام جینا امینی تھا کے اہل خانہ کی ویڈیوز بھی شیئر کی ہیں۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کوما میں رہنے کے بعد مہسا کی موت کی خبر سنتے ہی چیخیں اور آہیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔
“I want my daughter alive.”
Mahsa Amini’s grieving mother in hospital in Tehran.This is the moment that Mahsa Amin’s family were told that the doctors couldn’t save her life.#MahsaWasMurdered by the Islamic Republic’s hijab police in Iran.
— Masih Alinejad 🏳️ (@AlinejadMasih) September 16, 2022
مہسا پر تشدد کیخلاف احتجاج کے دوران مظاہرین نے ایرانی حکام پر سنگین الزامات عائد کئے اور کہا برسوں سے ہمارے ملک میں خواتین کے متعلق جابرانہ قوانین نافذ کرکے انہیں قتل کیا جارہا ہےمظاہرین نے کہا آیت اللہ خانہ ای نے ہماری بہن کو مار ڈالا ہے۔ یہ حکومت داعش جیسی ہے۔ مظاہرین نے آمر کی موت کے نعرے بھی لگائے۔
واضح رہے کہ مہسا کی موت سے کچھ روز قبل 16 اگست 2022 کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے خواتین کیلئے لباس کی پابندی کے قانون کی خلاف ورزی پر سخت سزاؤں کے حکم نامے پر دستخط کئے تھے۔
یہ حکمنامہ بھی 12 جولائی کو ’’یوم حجاب اور عفت‘‘ کے اعلان کے بعد ملک بھر میں درجنوں خواتین کی گرفتاری کے بعد سامنے آیا تھا۔ ان گرفتار ہونے والی خواتین میں اداکارہ سیبیدہ راشنو بھی شامل تھیں۔