تھانے میں میری ویڈیو بنائی گئی، انیقہ ممتاز اسلام آباد پولیس پر برس پڑیں

0
31

اسلام آباد:جس شہرکاقاضی ملاہوظالم سے،اس شہرمیں عزت سلامت نہیں رہتی:وزیراعظم صاحب:مجھےانصاف کون دے گا:ڈاکٹرانیقہ ممتازکی بے بسی کے آنسووں کو دیکھ کرکوئی بھی اپنے جزبات پر قابونہ پاسکا

اسلام آباد کے پمز ہسپتال کی ڈاکٹرانیقہ ممتاز کہتی ہیں کہ میں پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہوں اور پمز ہسپتال اسلام آباد میں بطور ڈاکٹر خدمات سرانجام دے رہی ہوں ،ڈاکٹرانیقہ ممتازکہتی ہیں کہ میرا شوہر جسکا نام مدثر ہے پمز ہسپتال کے شعبہ ڈینٹسٹری میں ملازم ہے، متعدد مرتبہ مجھے بدترین تشدد کا نشانہ بنا چکا ہے، ڈاکٹر انیقہ ممتاز اپنی بے بسی کااظہارکرتے ہوئے کہتی ہیں کہ گزشتہ ہفتے کے روز بھی ہماری لڑائی ہوئی جسکے بعد میں نے ریسکیو 15 کال کی اور اسکے بعد میرے شوہر نے بھی مختلف لوگوں کو متعدد کالز کیں،

ڈاکٹر انیقہ ممتازاپنے اوپرہونے والے ظلم وزیادتی کے بعد اسلام اباد کے طاقتورلوگوں کی بے حسی پرکچھ یوں‌ کہتی ہیں‌ کہ تھانہ کراچی کمپنی پہنچنے پرحیران کن طور پر پولیس کا رویہ جانبدار تھا،پولیس نے میری بات سننا تک گوارہ نہ کی،اے ایس آئی صادق کا رویہ انتہائی غیرمہذب اور ناقابل برداشت تھا،ڈاکٹر انیقہ کہتی ہیں کہ وہ پیسے کے لحاظ سے اسلام آباد کے ایک بڑے ہسپتال کی سنیئرڈاکٹر ہیں اور وفاقی دارالحکومت میں ایک خاتون ڈاکٹر کیساتھ پولیس کا ایسا رویہ ہو سکتا ہے میرے وہم وگمان میں نہیں تھا،

ڈاکٹر انیقہ ممتازنے پولیس کے رویے کے بارے میں بتایا کہ میں نے متعدد بار اپنا موقف پولیس کے سامنے پیش کرنا چاہا اور یہ باور کروانے کی کوشش کی میں نے ریسکیو 15 پر اپنے شوہر کیخلاف شکایت درج کروائی مگر مدعی کیساتھ ملزم سے بھی بدتر سلوک کیا گیا،اے ایس آئی صادق نے میری ایک نہ سنی اور مجھے گالیاں دینا شروع کر دیں جس پر میں نے احتجاج کیا، ڈاکٹر انیقہ ممتازپولیس کی غیراخلاقی حرکتوں کا نقشہ کچھ یوں کھینچتی ہیں کہ پولیس میرے شوہر سے ملی ہوئی تھی تو کمال ہوشیاری اور پولیس کی ملی بھگت سے میرے عقب میں کھڑے میرے شوہر نے اس صرف میری ویڈیو بنائی،

ڈاکٹر انیقہ ممتازنے اسلام آباد میں طاقتورحلقوں کو بتاتی ہیں کہ اس دوران تھانہ کراچی کمپنی کے اے ایس آئی صادق نے غلیظ زبان استعمال کی اور مجھے اشتعال دلایا گیا، ویڈیو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بنائی گئی، تھانہ کراچی کمپنی کے اے ایس آئی صادق نے میرے شوہر کیساتھ ملکر جھوٹ پر مبنی ٹیمپر شدہ وڈیوز مختلف واٹس ایپ گروپوں بالخصوض سوشل میڈیا پر وائرل کی، ویڈیو سے خود کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کی، کیونکہ انہوں نے صرف میرا چیخنا دکھایا، ویڈیو میں منصوبے کے تحت اے ایس آئی صادق کی بدتمیزی اور غلیظ زبان کو نظر انداز کیا گیا،

ڈاکٹر انیقہ ممتازنے بتایا کہ ماضی کی طرح اس روز بھی میرے شوہر نے مجھ پر پمز ہسپتال کی پارکنگ میں گھریلو تنازعہ پر بحث کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا۔ تہذیب یافتہ خاندان سے تعلق رکھتی ہوں بلاجواز کوئی کسی پر اس انداز میں کیسے چیخ سکتا ہے،اے ایس آئی صادق نے مجھے غلیظ گالیاں دے کر منصوبے کے تحت اکسایا تاکہ صرف میری ویڈیو بنا کر مذموم مقاصد حاصل کئے جاسکیں،سوشل میڈیا اور واٹس ایپ پر جھوٹی خبروں میں پولیس اور شوہر مدثر کی ملی بھگت سے میری کردار کشی کی گئی،

ڈاکٹر انیقہ ممتاز بتاتی ہیں کہ مدثر نے جون 2021 میں میرے گھر میں گھس کر مجھے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور سامان کی توڑ پھوڑ بھی کی جسکے بعد میں نے تھانہ گولڑہ میں درخواست دی پر بعد ازاں اسکے نادم ہونے اور معافی مانگنے پر خدا واسطے معاف کر دیا، ستمبر 2021 میں اس نے مجھ پر جان لیوا حملہ کیا جس کا مقدمہ تھانہ لوہی بھیر میں درج ہوا،

ڈاکٹرانیقہ ممتاز بتاتی ہیں کہ جعلی نکاح سے متعلق جون 2022 میں میری درخواست پر پولیس نے مدثر کے خلاف مقدمہ درج کیا تاہم نہ پولیس نے اسے گرفتار کیا نہ ہی جعلی نکاح کروانے والے نکاح خواں اور اسکے ساتھیوں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی، عدالت میں حقیقی نکاح کے بعد رواں سال اگست اور ستمبر میں بھی میرا ظالم اور ذہنی مریض شوہر ظلم و ستم کرنے سے باز نہ آیا، یکم اکتوبر کو بھی اس نے بیہمانہ تشدد کیا ۔مدثر کے تشدد کے بعد تھانے جا کر جو سلوک ہوا وہ ناقابل برداشت ہے،

ڈاکٹر انیقہ ممتاز کا کہنا تھا کہ میں ٹیکس ادا کرتی ہوں پاکستان کی معزز شہری اور ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ خاتون ہوں،مہذب معاشروں میں خواتین کیساتھ ایسی نازیبا زبان میں بات کرنے اور گالیاں دینے کا تصور نہیں ہے، وفاقی پولیس کے تھانے میں مثالی پولیس کا خاتون کیساتھ ایسا رویہ کسی طور قابل قبول نہیں ہوسکتا ہے، میرے ساتھ ہونے والا دل خراش واقعہ اعلی پولیس حکام کے لئے لمحہ فکریہ ہے،افسوس کیساتھ کہنا چاہوں گی کہ پولیس سٹیشن میں میرا موقف نہیں سنا گیا،

ڈاکٹر انیقہ ممتازنے بتایا کہ ایک پڑھی لکھی خاتون کی تذلیل کی گئی یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر میرا موقف درست نہ تھا تو ویڈیو وائرل ہونے کے بعد آئی جی اسلام آباد پولیس کو از خود نوٹس لیتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کروا کر حقائق کو سامنے لانا چاہیے تھا،ریسکیو 15 کی کال، پولیس سٹیشن میں نصب سی سی ٹی کیمروں کی مدد سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکتا ہے، ڈاکٹر انیقہ ممتازبتارہی تھیں کہ المیہ یہ ہے کہ وفاقی پولیس کے اعلی افسران سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی،

ڈاکٹرانیقہ ممتازکا کہنا تھا کہ میری وفاقی وزیر انسانی حقوق ریاض حسین پیرزادہ ، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر خان پولیس سے مطالبہ ہے کہ میری ایف آئی آرز سمیت حالیہ واقعے اور جون 2022 کے تھانہ کراچی کمپنی میں درج مقدمہ کی اعلی سطحی غیر جانبدارانہ انکوائری ہنگامی بنیادوں پر کروائی جائے اور میری داد رسی کی جائے،

ڈاکٹر انیقہ ممتازایک بہت بڑے خطرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ضروری نہیں سارا شاہنواز یا نور مقدم جیسے افسوسناک واقعات کے بعد نادم ہوا جائے اور انصاف کے لئے آواز بلند کی جائے،مدثر جو ایک ذہنی مریض ہے، متعدد مرتبہ گلہ دبانے سمیت تھپڑوں مکوں سے زخمی کر چکا ہے جسکے تصویری ثبوت بھی موجود ہے مگر تاحال نہ پولیس سے ریلیف ملا نہ ہی کسی دوسرے فورم سے ازالہ ہوا،اب ظلم کی انتہا ہو چکی ہے میں انصاف کے حصول کے لئے ہر فورم پر جاؤں گی،ڈاکٹر انیقہ ممتازنے عزم کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ میں انصاف ملنے تک چین سے نہیں بیٹھوں گی۔

Leave a reply