پرائیویٹ سکولز اور اساتذہ کا استحصال از قلم :بشا رحمان

0
63

از قلم بشا رحمان
پرائیویٹ سکولز اور اساتذہ کا استحصال
میں آواز بننا چاہتی ہوں ان اساتذہ کرام کی جو پرائیویٹ سکولز کے رحم و کرم پہ ہیں اور آدھا دن وہاں مغز ماری کے بعد بھی ان کا استحصال کیا جاتا ہے اور استاد کم اور غلام زیادہ سمجھا جاتا ہے جس کے گھر کی آپ دو وقت کی روٹی پوری کرتے ہیں ۔
اس موضوع پہ سب سے زیادہ شکایات ہونے کے باوجود سب بےبس نظر آتے ہیں سواے تسلی کے کوئی کچھ نہیں کر سکتا ہے یا تو برداشت کرو یا چھوڑ دو۔
جب ہم ‘استاد’ کہتے ہیں تو ایک بہت ہی مقدّس ہستی کا تصور ذہن میں آتا ہے جو ہمیں علم جیسی دولت سے مالا مال کر کے ہمارے ذہنوں کو روشن کر کے ہمارے کردار کو چمکا کر ہمارا مستقبل سنوارتے ہیں ۔
لیکن افسوس! ہمارے معاشرے میں استاد کا مقام دن بدن گرتا جارہا ہے ۔
سرکاری سکول تو سرکاری پرائیویٹ سکولز میں انٹرویو سے لے کی جاب چھوڑ دینے تک بس اساتذہ کا استحصال کیا جاتا ہے۔ ان گنہگار آنکھوں نے جتنی بے قدری استاد کی پرائیویٹ سکولز میں دیکھی ہے اور کہیں نہیں دیکھی ہے۔
2 چیزوں کے بارے میں میں نے پرائیویٹ سکولز میں شدّت دیکھی ہے
نقاب کرنے اور آپ کے انگلش نا بول سکنے پہ۔
آپ کے نقاب کی پرائیویٹ سکولز میں کوئی جگہ نہیں ہوتی ہوں لگتا ہے آپ کسی مغربی سکول میں جاب کرنے آئے ہیں ۔

صاف صاف بتایا جاتا ہے کے آپ نقاب نہیں کر سکتی اور بہانہ کیا جاتا ہے کے اگر آپ نقاب کریں گی تو بچوں کو سمجھ کیا آئے گا بالفرض اگر آپ نقاب نا کرنے پہ سمجھوتہ کر بھی لیں تو بات یہاں رکتی نہیں ہے بلکہ مزید پھر آپ کے عبایا کو ٹینٹ کہا جاتا ہے آپ کو پینڈو اور نجانے کیا کیا کہا جاتا ہے۔ انٹرویو میں اس بات پہ زور دیا جاتا ہے کہ دیکھیں مس آپ نے جو بولنا ہے انگلش میں بولیں گی۔
اور اس بارے میں بہت زیادہ شدّت پائی جاتی ہے جو ایسے ملک میں جس کی قومی زبان اردو ہے بہت حیرت کی بات ہے۔
نقاب مسلمان عورتوں کی پہچان ہے اور اردو پاکستانی ہونے کی، مگر پرائیویٹ سکولز میں پردے اور اردو زبان کا بس استحصال کیا جاتا ہے۔
میرا گورنمنٹ سے سوال ہے ریاست مدینہ میں پردے اور قومی زبان کے استحصال کی اجازت کیوں ؟
ہمیں اسلامی شعار پہ عمل کرنے میں دشواری کیوں؟
اس اسلامی ملک میں نوکری کرنے کے لیے پردہ اتروانے کی سازش کیوں؟
کیوں ہماری نسل نو کے سامنے ہمیں انگریزی کردار دکھانا پڑتا ہے ؟
کیونکہ یہ سازش ہے چونکہ استاد ہی بچوں کے لئے رول ماڈل ہوتا ہے اس لیے استاد کو ہی بچوں کی نظروں میں گرایا جاتا ہے ۔یا پھر اسے ایک ایسا نمونہ بنایا جاتا ہے کہ بچوں کی ذہن سازی اسلامی نہج پہ نہ ہو بلکہ ماڈرنیٹی کے نام پہ مغربی ہو ۔
آخر کیوں؟
کب تک ؟
حکومت پاکستان کو ان مسائل کا حل نکالنا ہوگا ۔اور اس کلمے کے نام پہ بننے والے ملک میں جس کی قومی زبان اردو ہے ان دونوں پہ پابندی ختم کروانا ہوگی ۔
بات صرف انٹرویو پہ رکتی نہیں ہے چند ہزار کے عوض آپ کو خریدا جاتا ہے پرائیویٹ سکولز میں بس ایک ہستی کی عزت ہے اور وہ ہیں طالب علم۔ بچوں کو سبق نہیں یاد تو آپ انہیں کچھ کہہ نہیں سکتے، کیوں کے انکی فیسوں سے آپ کو تنخواہ ملتی ہے نا۔
پرائیویٹ سکولز میں آپ کی نوکری کے رہنے یا نا رہنے کا انحصار طالب علموں پہ ہوتا ہے اگر آپ انہیں پسند ہو تو وہاں رہ سکتی ورنہ عذاب مسلسل سے گزرنا پڑتا ہے بچوں کی شکایتیں ان کے والدین کی شکایتیں ہر طرف سے بس شکایتیں۔
اور پھر بات زبان اور نقاب ختم کرانے پہ ہی نہیں رکتی بلکہ
اگر آپ نے پرائیویٹ سکول میں پڑھانا ہے تو آپ کو ٹیچر کم اور ماڈل زیادہ لگنا چاہیئے ۔
"دیکھیں مس بچوں کو آپ میں کشش نظر آیے گی تب ہی پڑھیں گے نا” یہی وجہ ہے کے بچوں کو ٹیچر میں روحانی ماں باپ تو کیا نظر آنے آنکھوں کو تراوٹ بخشنے کا سامان زیادہ نظر آتا ہے۔
میرا تجربہ ہے جتنا مجبوریوں سے فائدہ پرائیویٹ والوں کو اٹھاتے دیکھا ہے ایسا اور کہیں نہیں دیکھا ہے۔
اتنے سب کے بعد اگر آپ ایک ہستی سے نہیں بنا کے رکھ سکے جو نا تو پرنسپل ہوتی نا ہی وائس پرنسپل بلکہ وہ ہستی ہوتی ہے جو آپ کی ہر رپورٹ کو غلط بنا کے آگے دیتی ہے تب بھی آپ وہاں نہیں رہ سکتے ہیں
مجھے آج تک سمجھ نہیں آیی کے انکو کہا کیا جاتا ہے آپ ہی فیصلہ فرما دیجیے؟
اس سب کے بعد اگر آپ نے عزت سے نوکری چھوڑ دی ہے آپ کو نکالا نہیں جاتا ہے تو آپ خود کو خوش نصیب سمجھیں اگر نوکری کرنا مجبوری نہیں تو آپ آرام سے گھر بیٹھیں اور اگر مجبور ہیں تو خود کو نئے سرے سے اس سب کیلئے تیار کریں کم یا زیادہ یہی سب پیش آنے والا ہے

Leave a reply