پرائیویٹ تعلیمی ادارے مافیاز ،تحریر :ارم شہزادی

0
36

ویسے تو اس پر بہت لکھا جا چکا ہے لیکن بدقسمتی سے اسکا فائدہ نہیں ہوا ہےیہ مافیا کیسے بنا ہم نے بنایا یا ہمیں مجبور کیا گیا کہ اس مافیا کے سامنے سر جھکا دیں؟ آج سے پندرہ بیس سال پہلے جو پرائیویٹ سکولز میں بچے تعلیم حاصل کرتے تھے انہیں نالائق سمجھا جاتا تھا کہ یہ بچے سب بچوں کے ساتھ مل کر نہیں چل سکتے ہیں تو اس لیے الگ کردیا گیا پرائیویٹ سکول بھی چند بڑے ناموں کے علاوہ اکا دکا تھے۔ گورنمنٹ سکول میں پڑھانے والے اساتذہ کا معیار کافی بلند تھا انگریزی بھلے 6کلاس سے شروع ہوتی تھی لیکن بچوں کو اچھی خاصی واقفیت تھی اردو بولنا اور صحیح تلفظ سے ادا کرنا خوب جانتے تھے گنتی اردو انگریزی دونوں میں آتی تھی۔ پھر وقت یا ہماری قسمت نے پلٹا کھایا اور ہم ان پرائیویٹ اداروں میں پھنس گئے۔ گورنمنٹ کے اداروں کو جان بوجھ کے تباہ کیا گیا یا ان پر توجہ نہیں دی گئی اور گلی گلی انگلش میڈیم اسکول کے نام پے پانچ پانچ مرلے میں زہنی مریض بنانے کی نرسریاں بنائی گئیں ۔ ان نرسریوں کے خوش نما جملوں نے جہاں والدین کو سحرزدہ کیا وہیں کچھ پڑھے لکھے نوجوان بھی مرعوب ہوئے۔ اب یہ پورے ملک میں جونک کی طرح چمٹ گئے ہیں۔ اب ایک طرف والدین ان بھاری فیسوں کی مد میں پستے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف پسنے والے وہ نوجوان ہیں جو ان اداروں میں کام کرتے ہیں۔ والدین سے فیسیں پوری لی جاتی ہیں جبکہ استحصال اساتذہ اور دوسرے عملے کا کیا جاتا ہے۔ چند ہزار تنخواہ سے سکول کے معیار کو بھی رکھنا ہے جبکہ اپنی ضروریات کو بھی پورا کرنا ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں یہ ممکن نہیں رہا ہے۔ اگر کبھی انکے خلاف اواز اٹھائی گئی تو یہ کہہ کر خاموش کروا دیا جاتا ہے کہ لاکھوں نوجوانوں کو روزگار دیا ہوا ہے کیا وہ روزگار مفت دیا ہوا؟

کیا بچوں سے فیسیں نہیں لی گئیں؟ تعلیم۔ علم جو پیغمبری پیشہ ہے اسے صرف ایک کاروبار بنا دیا جس میں صرف کمائی مالکان کی ہورہی ہے۔ جبکہ بچوں سے پوچھیں تو چند جملے اردو یا انگریزی کے وہ نہیں بول سکتے ہیں تربیت کرنے نہیں دی جاتی بس پالیسی ہے کہ رٹوائے جاؤ کتابی جملے کتابی لفظوں سے زیادہ وہ ایک لفظ نہیں سمجھ سکتے۔ زرا سی ڈانٹ ڈپٹ ہو جائے تو والدین کی شکایات الگ اور سکول انتظامیہ کی الگ ہوتی ہیں اس میں یہ نوجوان طبقہ پس کے رہ گیا ہے۔ رہی سہی کسر قدرتی آفات پورا کردیتی ہیں جیسے ابھی کورونا آیا تو متاثر والدین ہوئے بغیر کلاسز کے فیسیں پوری لیں ان اداروں نے جبکہ اساتذہ اور باقی عملے کو یا تو مکمل فارغ کردیا گیا یا پھر تنخواہوں میں کٹوتیاں کی گئیں۔ اور اب ویکسین نا لگوانے والوں کی تنخواہیں ادھی دی گئیں مگر کوئی نہیں ہے جو اس ظلم کے خلاف آواز اٹھا سکے۔ اگر ان پانچ پانچ مرلے کی نرسریوں کے بجائے ہنر مندی کی فیکڑیز لگائی جاتیں تو آج یہ ملک اپنی ضروریات کی چیزیں خود بنا رہا ہوتا حکومتیں اپنی سرپرستی میں چلنے والے تعلیمی اداروں پر توجہ دیتی تو ہم بھی جابر بن حیان، عبدل اسلام، نیوٹن پیدا کررہے ہوتے ناکہ رٹاوی نسل۔ اور اب یہ تباہی سکول سے نکل کر کالج اور پھر کالج سے نکل کر یونیورسٹیوں تک پہنچ گئی ہے۔ لوٹ مار کا بازار گرم ہے پرائیویٹ کالج اور یونیورسٹیوں کے فیس پیکجز اور فنکشنز ان پے آنے والے اخراجات نے والدین کی کمر دہری کردی اور اخلاقیات الٹا تباہ ہوئیں۔ پھر گورنمنٹ کے سب کیمپسز کے نام پے الگ لوٹ مار۔ خدارا اس نسل کو بچائیں اس تعلیمی نظام اور پرائیویٹ اداروں سے۔ ان کے ہاتھوں ہونے والے استحصال سے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی حوصلہ شکنی کیجے گورنمنٹ کے اداروں پر توجہ دیجیے لاکھوں میں تنخواہیں اور پھر ساری زندگی پینشنز لینے والوں کو بھی تھوڑا نگاہ میں رکھیے۔ اسی طرح کی رٹاوی اور ذہنی مریض جن میں قوت برداشت زیرو ہے آتی رہی تو مستقبل روشن ہونے کے بجائے تاریک ہوگا۔ ابھی سوچیے ابھی وقت ہے۔
جزاک اللہ

Leave a reply