تحریک انصاف انتشار کا دوسرا نام
پاکستان میں سب سے زیادہ پرتشدد احتجاج کی تاریخ رکھتی ہے۔ پی ٹی آئی کو جب جب جلسے کی اجازت ملی، تب تب اس نے انتشار کو فروغ دیا۔
پی ٹی آئی کو 2014 میں احتجاج کی اجازت دی گئی، انہوں نے پارلیمنٹ پر حملہ کیا، پی ٹی وی کے ہیڈکوارٹر پر قبضہ کیا۔ ڈی چوک کا آدھا حصہ جلا دیا، کئی عمارتوں پر حملہ کیا جن میں جیو کا دفتر اور علاقے کا اسپتال شامل تھے۔
2016 میں انہیں احتجاج کی اجازت دی گئی، انہوں نے خیبر پختونخوا حکومت کے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد کو بند کرنے کے لیے خیبر پختونخوا پولیس کو اسلام آباد اور پنجاب پولیس پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا۔ انہوں نے صوبائی حکومت کی فورس کو وفاقی حکومت کی سیکیورٹی فورسز پر حملہ کروایا۔ انہوں نے پولیس افسران پر حملے کیے، ان کی وینز کو جلایا، جبکہ عمران خان نے خود اعتراف کیا کہ انہوں نے ان پر پٹرول بم بھی پھینکے۔
25 مئی 2022 کو انہیں اسلام آباد کے باہر احتجاج کی اجازت دی گئی لیکن انہوں نے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہر کی سڑکوں کو جلایا۔ اس کی توہین عدالت کا کیس ابھی تک سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
9 مئی کو انہیں عمران خان کی گرفتاری پر پرامن احتجاج کی اجازت دی گئی، لیکن انہوں نے کور کمانڈر ہاؤس اور 200 سے زیادہ دیگر مقامات کو جلا دیا۔
ان کے وزیر اعلیٰ جلسے سے پہلے اس بات پر ریکارڈ پر ہیں کہ وہ اسلام آباد آ کر بیٹھیں گے اور عمران خان کو جیل سے نکالیں گے۔
ایسی پارٹی پر بھروسہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ کیا ہمارے پولیس افسران کی جانیں اور عوامی انفراسٹرکچر اتنے سستے ہیں کہ ہم پی ٹی آئی کو اس پر ناچنے دیں اور عوام اس کی قیمت ادا کرے؟
تحریک انصاف انتشار کا دوسرا نام
پاکستان میں سب سے زیادہ پرتشدد احتجاج کی تاریخ رکھتی ہے۔ پی ٹی آئی کو جب جب جلسے کی اجازت ملی، تب تب اس نے انتشار کو فروغ دیا۔
پی ٹی آئی کو 2014 میں احتجاج کی اجازت دی گئی، انہوں نے پارلیمنٹ پر حملہ کیا، پی ٹی وی کے ہیڈکوارٹر پر قبضہ کیا۔ ڈی چوک… pic.twitter.com/WsgVYavWfm— Amjad Hussain Bukhari (@AmjadHBokhari) September 8, 2024
تجزیہ:سید امجد حسین بخاری