پی ٹی آئی اسرائیلی برانڈ ہے ،رانا ثناء اللہ

پاکستان سمیت ہر مسلمان کو فلسطینیوں کے قاتل اسرائیل کے سیاسی برانڈ کا بائیکاٹ کرنا چاہیئے۔
rana sana

اسلام آباد: وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کو ’اسرائیلی سیاسی برانڈ‘ قرار دے دیا۔

باغی ٹی وی: رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ٹائمز آف اسرائیل نے پاکستان میں انقلاب اور تبدیلی لانے کی حقیقت کھول دی، اس انکشاف کے بعد نو مئی کی منصوبہ سازی اور حملوں کی وجوہات مزید واضح ہوگئی ہیں،فارن فنڈنگ اور سماجی خدمت ایک پلاننگ کا حصہ تھی، جس کا مقصد پاکستان کی اسلامی، نظریاتی سوچ اور خارجہ پالیسی کو بدلنا تھا، نواز شریف کو اقتدار سے نکالنے کی پوری کہانی اسرائیلی اخبار کے مضمون کو پڑھ کر سمجھ آتی ہے-

انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے بانی پی ٹی آئی جیسے مہرے کے حق میں بیان کیوں دیا تھا، امریکی کانگریس سے قرارداد کیوں منظور ہوئی تھی، اس کے تانے بانے سب کھل کر سامنے آگئے ہیں،پی ٹی آئی اسرائیلی برانڈ ہے جسے اسلامی ٹچ دے کر مسلمانوں میں مقبول کرنے کی کوشش کی گئی، پاکستان سمیت ہر مسلمان کو فلسطینیوں کے قاتل اسرائیل کے سیاسی برانڈ کا بائیکاٹ کرنا چاہیئے۔

پی ٹی آئی جلسے کیلئے خیبرپختونخوا کے سرکاری وسائل کا استعمال

ریاست کے خلاف منصوبہ بندی کرنے کے جرم کی کوئی معافی نہیں،مریم اورنگزیب

ضلع کرم میں سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملہ، ایک ایف سی اہلکار …

واضح رہے کہ اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے اپنے بلاگ میں پاک اسرائیل تعلقات میں عمران خان کے کردار کے حوالے سے لکھا کہ کس طرح وہ دونوں ممالک کے درمیان بہتری کا ذریعہ بن سکتے ہیں،آذربائیجان کی محقق عینور بشیرووا نے اپنے بلاگ میں عمران خان سے متعلق لکھا کہ انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں فلسطین کے لیے پاکستان کی روایتی حمایت جاری رکھی۔ انہوں نے غزہ میں اسرائیل بربریت کے خلاف آواز اٹھائی، فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کی اور مسئلہ فلسطین کے حل ہونے تک اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کرنے سے انکار کیا۔ یہ سب سے زیادہ پاکستانیوں کی توقع اور پاکستان کے دیرینہ خارجہ پالیسی کے موقف کے مطابق تھا۔

تاہم بلاگر نے لکھا کہ عمران خان نے چین اور سعودی عرب جیسے پرانے دوستوں کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی، جبکہ ان ممالک سے بھی بات کی جو ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ نہیں تھے۔ اس نقطہ نظر سے ظاہر ہوتا ہے کہ خان اسرائیل کے بارے میں پاکستان کے موقف پر نظر ثانی کرنے کے لیے اس سے زیادہ تیار تھے جتنا کہ وہ اپنے عوامی بیانات میں دیتے تھے۔ وہ شاید کھلے خیالات کے مالک تھے۔

ایک طرف اسرائیل اور دوسری طرف عمران خان کی سابقہ ​​اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ اور ان کے خاندان کے ساتھ قریبی تعلقات پر غور کرنا ضروری ہے۔ گولڈ اسمتھ برطانیہ کا ایک امیر اور بااثر خاندان ہے اور جمائما کا بھائی زیک گولڈ اسمتھ برطانوی سیاست کا حصہ رہا ہے۔ یہ تعلق اسرائیل کے بارے میں عمران خان کے خیالات کو ممکنہ طور پر متاثر کر سکتا تھا، چاہے انہوں نے اسے عوامی سطح پر ظاہر نہ کیا ہو۔

مضمون میں لکھا گیا کہ زیک گولڈ اسمتھ کے برطانیہ میں یہودیوں اور اسرائیل کے حامی گروپوں کے ساتھ تعلقات اور مغربی رہنماؤں میں ان کے خاندان کے اثر و رسوخ نے عمران خان کو اسرائیل کے بارے میں ایک نیا نقطہ نظر دیا ہو گا۔ عمران خان نے لندن کے میئر کے انتخاب میں زیک کی حمایت کر کے گولڈ اسمتھ خاندان سے اپنی وفاداری ظاہر کی، یہاں تک کہ جب ایک اور مسلمان، صادق خان انتخاب میں حصہ لے رہے تھے عمران خان کی یہ خیر خواہی بتاتی ہے کہ عمران خان گولڈاسمتھ اور ان کے نیٹ ورک کے ساتھ اپنے تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جنہوں نے ماضی میں بھی ان کی حمایت کی۔

مختلف رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ عمران خان گولڈ اسمتھ خاندان کے ذریعے اسرائیلی حکام کو پیغامات بھی بھیج چکے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے تیار ہیں اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کے موقف کو نرم کرنے اور پاکستان میں مذہب کے حوالے سے زیادہ اعتدال پسند طرز عمل کو فروغ دینے کے لیے تیار ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خان لچکدار شخصیت ہیں اور مشرق وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتحال کے مطابق پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ڈھالنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ اسے پاکستان کو فائدہ پہنچانے کے لیے ایک اسٹریٹجک اقدام کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔

Comments are closed.