پی ٹی ایم اور پاکستان کا خون — تحریرعرفان مہمند

0
24

پی ٹی ایم جس کا خمیر محسود تحفظ موومنٹ سے اٹھا، اس تحریک نے بہت سے پشتون نوجوانوں کو ایک ایسے خواب کی تعبیر کا مژدہ سنایا جس کو لئیے پشتون قوم کے نوجوان، بڑے و بوڑھے کئی سالوں سے ریاست کی طرف آس لگائے دیکھ رہے تھے۔ خواب تھا امن کا، ترقی کا، ریاست سے اس بات کا وعدہ لینے کا جس میں پشتون علاقوں سے دہشتگردوں اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو اور وہاں امن، سکون، تعمیر، ترقی، خوشحالی، کاروبار، تعلیم و صحت جیسے معاملات پنپ سکیں۔

بہت تیزی سے بہت سے نوجوان اور ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نےاس تحریک کے لئیے وقت دینا شروع کیا مگر چند ہی ہفتوں میں جب تحریک کے اکابرین نے اپنے آگے پیچھے لوگوں کا جم غفیر دیکھا تو وہ شاید اپنے اصلی ایجنڈا کو زیادہ دیر چھپا نہ سکے اور ان کے پروگرام اور جلسے "یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی’ ہے جیسے واہیات نعروں سے گونج اٹھے۔
اس کے بعد ریاست پاکستان اور اس کی افواج کے خلاف ہر وقت اور ہر موقع پر لوگوں کو اشتعال دلایا گیا۔ بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس بات کو خوب خوب اچھالا۔

کبھی منظور پشتین کا جلسے سے خطاب جس میں وہ GHQ کو دہشت گردوں کا گڑھ کہتا ہے اور کبھی اس کا بیان جس میں وہ قائد و اقبال پر تبرا کرتا اور مذاق اڑاتا ہے.کبھی علی وزیر کی بیان جس میں وہ فوج اور عوم کے تصادم کی بات کرتا ہے اور کبھی کہیں وہ فوج کو مارنے اور گھسیٹنے کی بات کرتا ہے۔ کہیں آزاد پشتونستان کی بازگشت سنائی دیتی ہے اور کہیں فوج کو قابض کہنے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی گالی دی جاتی ہے۔ کہیں پنجابی کو نسل پرستانہ جملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کہیں لوگوں کو چیک پوسٹ پر حملہ کرنے پر ابھارا جاتا ہے تاکہ وہ پکڑے گئے دہشت گردوں کو چھڑوا سکیں۔

کہیں پر یہ دھمکی دی جاتی ہے کہ فوج نکل جائے ورنہ ہم خود نبٹ لیں گے فوج سے۔۔۔ اور کہیں دہشت گردوں کی آمد کو روکنے کے لئیے لگائی جانے والی باڑ کو روکنے کے لئیے آوازیں اٹھائی جاتی ہیں۔ کہیں ایک معصوم بچی کی لاش پر سیاست کی جاتی ہے اور کہیں ایک مظلوم باپ کی فریاد رسی کو مذاق اور گالم گلوچ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ غرض ہر وہ کام اور معاملہ روا رکھا گیا جس نے امن اور خوشحالی کے خواب کو ریاست سے ٹکراؤ اور خون ریزی کے عمل سے بدل دیا۔ اور اب کل رات شمالی وزیرستان کے علاقے سپین واگ میں دو فوجی اہلکاروں کی پی ٹی ایم کے ہی سپورٹرز کے ہاتھوں شہادت اس بات کی غماز ہے کہ پی ٹی ایم اب ہر وہ حد عبور کرنے کے لئیے تیار ہے جس کے ذریعے وہ لوگوں کے خون کو حلال کروا کر اپنے مقاصد پورے کر سکے۔

منظور پشتین ہو یا علی وزیر یا محسن داوڑ، عبداللہ ننگیال ہو یا احتشام افغان، ادریس پشتین ہو یا ندیم عسکر، فوزیہ ہو یا ثنا اعجاز اور عائشہ گلا لئی سب کے سب کا چہرہ ایک ایک کر کے بے نقاب ہوا چاہتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ریاست ان بھیڑ کی کھال مین چھپے بھیڑیوں سے اس خطے کو نجات دلائے ۔ پشتون اس وقت تک امن اور چین کی بانسری نہیں بجا سکتے جب تک اس طرح کے عناصر کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا جائے۔ پی ٹی ایم کو خون کی لت بہت پہلے سے لگ گئی تھی مگر اب پی ٹی ایم نے کھل کر اس کو بہانا بھی شروع کر دیا ہے۔ اس خون آشام بھیڑئیے کو ایک بلا بننے سے پہلے ہی نبٹ لینا چاہئیے۔۔ورنہ شاید پشتونوں کی ایک اگلی پوری نسل کو دہشت گردوں کے ایک نئے گروہ سے نبٹنا پڑ جائے گا۔
از قلم عرفان مہمند

Leave a reply