پنجاب ، دس ماہ میں ریپ کے 3088 ،بدفعلی کے 4503 واقعات

0
26
چار برس تک بیٹی کے ساتھ گھناؤنا کام کرنیوالے باپ کو عدالت نے سنائی سزا

خواتین اور بچوں پر تشدد کی روک تھام کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا، مسرت چیمہ
ترجمان حکومت پنجاب مسرت جمشید چیمہ نے کہا ہے کہ خواتین اور بچوں پر تشدد کی روک تھام کیلئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

وہ پنجاب یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل سٹڈیز میں خواتین اور بچوں پر تشد پرکے حوالے سے جاری آگاہی مہم کے سلسلے میں منعقدہ تقریب سے خطاب کررہی تھیں۔ اس موقع پر چیئرپرسن پنجاب ویمن پراٹیکشن کمیٹی رافعہ کمال، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ایس ایس ڈی او سید کوثر عباس، ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل سٹڈیز پروفیسر ڈاکٹر روبینہ ذاکر، این جی اوز کے نمائندگان، فیکلٹی ممبران اور طلبا ؤ طالبات نے شرکت کی۔

اپنے خطاب میں مسرت چیمہ نے کہا کہ خواتین اور بچوں پر تشدد کے خاتمے کیلئے قوانین پر سختی سے عملد رآمد ہونا چاہیے۔ خواتین کوامیر غریب، تعلیم یافتہ یا ان پڑھ ہر طرح کے افراد پر مشتمل سوسائٹی میں جنسی ہراسگی اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والی عورت کو عورت ہونے کے طعنے برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ ہماری بچیاں بہت باصلاحیت ہیں اگر انہیں مضبوط کرنے کیلئے اقدامات نہ کئے گئے تو ملک میں کبھی سیاسی و معاشی استحکام نہیں آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ جنسی ہراسگی اور تشدد کے مسائل کا سامنا ترقی یافتہ ممالک کو بھی ہے لیکن وہاں جزا اور سزا کا قانون موجود ہے۔

رافعہ کما ل نے کہا کہ خواتین اور بچوں پر ہونے والے تشدد کی روک تھام کیلئے تعلیمی اداروں میں سیمینارزا ورکشاپس کے ذریعے آگاہی کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس اور شعبہ صحت کے تعاون سے خواتین اور بچوں پر تشدد کے واقعات میں کمی لائیں گے۔ مرداور خواتین مل کر مہذب معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں انٹرٹینمنٹ کے نام پر خواتین کو مظلوم دکھانے والے مائنڈ سیٹ کو بدلنا ہوگا۔

سید کوثر عباس نے موضوع کے حوالے سے تحقیقی رپورٹ پر بریفنگ دیتے ہوئے شرکاء کو بتایا کہ گزشتہ دس ماہ میں پنجاب میں 3088 خواتین کے ساتھ ریپ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ صرف لاہور میں 446 خواتین زیادتی کا شکار ہوئی ہیں۔ بچوں کے ساتھ بد فعلی کے 4503واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن1221 واقعات کے ساتھ لاہور سر فہرست ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں کیسز کا رپورٹ ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں آگاہی کے حوالے سے مضامین شامل ہونے چاہیے۔گھریلو تشدد کو روکنے کیلئے پولیس میں خواتین کی نمائندگی میں اضافہ کرنا ہوگا۔

ڈاکٹر روبینہ ذاکر نے کہا کہ خواتین اور بچوں پر تشد د کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جس کے لئے مزید اقدامات کئے جانے چاہیے خواتین پرمختلف وجوہات کی بناء پر جسمانی، ذہنی، معاشی اور سیاسی تشد د کیا جاتا ہے۔ یہ صرف سماجی مسئلہ نہیں بلکہ صحت عامہ کا مسئلہ بھی ہے۔ کزن میرج، چائلڈ میرج کے رجحان میں کمی لانے کے لئے سب کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے طلباء طالبات کو نصیت کی وہ جو باتیں سیکھ کر جائیں اپنے اردگردلوگوں کو آگاہی فراہم کریں۔

تعلیمی ادارے میں ہوا شرمناک کام،68 طالبات کے اتروا دیئے گئے کپڑے

شوہرکے موبائل میں بیوی نے دیکھی لڑکی کی تصویر،پھر اٹھایا کونسا قدم؟

خاتون پولیس اہلکار کے کپڑے بدلنے کی خفیہ ویڈیو بنانے پر 3 کیمرہ مینوں کے خلاف کاروائی

جنسی طور پر ہراساں کرنے پر طالبہ نے دس سال بعد ٹیچر کو گرفتار کروا دیا

Leave a reply