دھاگے کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد نہ کی جائے، محمد عثمان

0
62

دھاگے کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد نہ کی جائے، محمد عثمان

پاکستان یارن مرچنٹ آف ایسو سی ایشن (پائما) کے سابق چیئرمین محمد عثمان، سینئر وائس چیئرمین سہیل نثار، وائس چیئرمین جاوید خانانی نے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے اپیل کی ہے کہ ملک میں یارن صنعت سے وابسطہ صنعتوں اور تاجروں کوتباہی سے بچانے کے لیے دھاگے (یارن) کی در آمد پر کوئی بھی ریگولیٹری ڈیوٹی عائد نہ کی جائے۔ اس سلسلے میں پاکستان یارن مرچنٹ آف ایسو سی ایشن کے نمائندہ وفد کو ملاقات کا وقت دیا جائے تاکہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل حکومت کو مکمل حقائق اور اعداد و شمار سے آگاہ کیا جا سکے۔وہ کراچی پریس کلب میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔اس موقع پر سینئر وائس چیئرمین ایف پی سی سی آئی سلیمان چاؤلہ اور سابق چیئرمین ثاقب گڈ لک بھی ان کے ہمراہ تھے۔

پائما کے رہنماؤں نے بریفنگ میں میڈیا کو تمام اعداد و شمار کی تفصیلات بھی بتائیں۔ رہنماؤں محمد عثمان، سہیل نثار، جاوید خانانی، سلمان چاؤلہ اور ثاقب گڈ لک نے حکومت سے اپیل کی کہ دھاگہ کی موجودہ ڈیوٹی اسٹرکچرکو برقرار رکھا جائے۔ مقامی ٹیکسٹال کے تحفظ کے لیے یارن کی درآمد پر کوئی آر ڈی عائد نہ کی جائے۔ ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ سے ملک میں مہنگائی پر براہ راست اثر پڑے گا۔ اور حالات خراب ہوں گے۔ دوسری جانب یارن مینوفیکچررز درآمدی دھاگے کے زمینی لاگت کے مطابق اپنی قیمتوں میں اضافہ کریں گے جس کے نتیجے میں تیار ٹیکسٹائل مصنوعات کی قیمت میں بھی اضافہ ہو گا اور مہنگائی پر دو گنا اثر پڑے گا۔ جس سے دیگر صنعتی مسائل بھی بڑھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دھاگے کے مینو فیکچررز ڈیوٹی اسٹرکچر میں بڑے فرق کے باوجود کم معیار اور پیداوار کی زیادہ لاگت کی وجہ سے مارکیٹ کو نہیں لے سکے۔ ہمارا مؤقف ہے کہ آر ڈی لگانے کی بجائے مؤثر پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کی کوشش کی جائے۔

پاکستان کو 5.84 ارب ڈالرز کاجرمانہ،عالمی ادارے کا اعلامیہ،باغی ٹی وی کی خبر کی تصدیق ہوگئی

افتخار چوہدری پاکستان کو لے ڈوبے،پاکستان کو 4.7 ارب ڈالرز کا جرمانہ کروا دیا

تمباکو پر ٹیکس عائد کر کے نئی حکومت بجٹ خسارے پر قابو پا سکتی ہے،ماہرین

بجٹ میں،کم فیس والے نجی سکولوں کے لیے الگ سے رقم مختص کی جائے، ملک ابرار حسین

پائمارہنماؤں نے مزید کہاکہ ہم پولیسٹر فلامنٹ یارن کے درآمد کنندگان ہیں جو پاکستان کے ٹیکسٹائل میں بنیادی خام مال ہے۔ یارن تیار شدہ شے نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کپاس کی جگہ یارن نے لے لی ہے۔ اور پاکستان میں ٹیکسٹائل کی صنعت کا زیادہ تر انحصار درآمدی یارن پر ہے۔ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یارن کو غلطی سے تیار شدہ شے سمجھ کر اگر حکومت نے آر ڈی نافذ کی تو اس کو تباہی سے نہیں بچایا جا سکتا لہٰذا حکومت پاکستان ہمارے مؤقف کو سنے سمجھے اور ہمیں تباہی اور ملک کو مہنگائی سے بچائے۔ایسو سی ایشن کے رہنماؤں نے میڈیا کو ڈیوٹی اور ٹیکس کی شرحوں کا موازنہ بھی پیش کیا اور تکنیکی مسائل سے بھی آگاہ کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے فوری توجہ کی اپیل بھی کی۔ اور کہا کہ آر ڈی کے نفاذ سے گریز کیا جائے

Leave a reply