قدیم نظام تعلیم تحریر: محمد معوّذ

0
43

جہاں تک ہمارے پرانے نظام تعلیم کا تعلق ہے وہ آج سے صدیوں پہلے کی بنیادوں پر قائم ہے، جس وقت یہاں انگریزی حکومت آئی اور وہ سیاسی انقلاب برپا ہوا جس کی بدولت ہم غلام ہوئے۔ اس وقت جو نظام تعلیم ہمارے ملک میں رائج تھا وہ ہماری اس وقت کی ضروریات کے لیے کافی تھا۔ اس نظام تعلیم میں وہ ساری چیزیں پڑھائی جاتی تھیں جو اس وقت کے نظام مملکت کو چلانے کے لیے درکار تھیں۔ اس میں صرف مذہبی تعلیم ہی نہیں تھی بلکہ اس میں فلسفہ بھی تھا، اس میں منطق بھی تھی، اس میں ریاضی بھی تھی۔ اس میں ادب بھی تھا اور دوسری چیزیں بھی تھیں ۔ اس زمانے کی سول سروس کے لیے جس طرح کے علوم درکار تھے، وہ سب طلبہ کو پڑھائے جاتے تھے ۔ لیکن جب وہ سیاسی انقلاب برپا ہوا جس کی بدولت ہم غلام ہوئے تو اس پورے نظام تعلیم کی افادیت ختم ہوگئی۔ اس نظام تعلیم سے نکلے ہوئے لوگوں کے لیے نئے دور کی مملکت میں کوئی جگہ نہ رہی ۔ جس قسم کے علوم اد دوسری مملکت کو درکار تھے وہ اس کے اندر شامل نہیں تھے اور جو علوم اس میں شامل تھے ان کے جاننے والوں کی اس دوسری مملکت کو کوئی ضرورت نہیں تھی۔ تاہم چوں کہ اس کے اندر ہماری صدیوں کی قومی میراث موجود تھی اور ہماری مذہبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی اس کے اندر کچھ نہ کچھ سامان موجود تھا (اگرچہ کافی نہ تھا) اس لیے اس زمانے میں ہماری قوم کے اچھے خاصے بڑے عنصر نے محسوس کیا کہ اس نظام کو جس طرح بھی ہوسکے قائم رکھا جائے تا کہ ہم اپنی آبائی میراث سے بالکل منقطع نہ ہو جائیں۔

اسی غرض کے لیے انھوں نے اسے جوں کا توں قائم رکھا لیکن جتنے جتنے حالات بدلتے گئے اتنی ہی زیادہ اس کی افادیت گھٹتی چلی گئی کیوں کہ اس نظام تعلیم کے تحت جو لوگ تعلیم پاکر نکلے انھیں وقت کی زندگی اور اس کے مسائل سے کوئی مناسبت ہی نہ رہی۔ اب جو لوگ اس نظام تعلیم کے تحت پڑھ رہے ہیں اور اس سے تربیت پا کرن کل رہے ہیں ان کا کوئی مصرف اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ ہماری مسجدوں کو سنبھال کر بیٹھ جائیں یا کچھ مدرسے کھول لیں اور طرح طرح کے مذہبی جھگڑے چھیڑتے رہیں تا کہ ان جھگڑوں کی وجہ سے قوم کو ان کی ضرورت محسوس ہو۔ اس طرح ان کی ذات سے اگر کچھ نہ کچھ فائدہ بھی ہمیں پہنچتا ہے۔ یعنی ان کی بدولت ہمارے اندر قرآن و دین کا کچھ نہ کچھ علم پھیلتا ہے، دین کے متعلق کچھ نہ کچھ واقفیت لوگوں کو حاصل ہوجاتی ہے اور ہماری مذہبی زندگی میں کچھ نہ کچھ حرارت باقی رہ جاتی ہے لیکن اس کے فائدے کے مقابلے میں جو نقصان ہمیں پہنچ رہا ہے، وہ بہت زیادہ ہے۔ وہ نہ تو اسلام کی صحیح نمائندگی کر سکتے ہیں، نہ موجودہ زندگی کے مسائل پر اسلام کے اصولوں کو منطبق کر سکتے ہیں، نہ ان کے اندر اب یہ صلاحیت ہے کہ دینی اصولوں پر قوم کی راہنمائی کر سکیں اور نہ وہ ہمارے اجتماعی مسائل میں سے کسی مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اب ان کی بدولت دین کی عزت میں اضافہ ہونے کی بجائے الٹی اس میں کچھ ککیمی ہورہی ہے، دین کی جیسی نمائندگی آج ان کے ذریعہ سے ہورہی ہے، اس کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں میں دین سے روز بروز بعد بڑھتا جارہا ہے اور دین کے وقار میں کمی آرہی ہے۔ پھر ان کی بدولت ہمارے ہاں مذہبی جھگڑوں کا ایک سلسلہ ہے جو کسی طرح ٹوٹنے میں نہیں آتا، کیوں کہ ان کی ضروریات زندگی انہیں مجبور کرتی ہیں کہ وہ ان جھگڑوں کو تازہ رکھیں اور بڑھاتے رہیں۔ یہ جھگڑے نہ ہوں تو قوم کو سرے سے ان کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔

یہ ہے ہمارے پرانے نظام تعلیم کی پوزیشن اور یہ بھی وضاحت کے ساتھ کہہ دوں کہ حقیقت میں وہ دینی تعلیم بہت کم ہے۔ دراصل وہ اب سے دو ڈھائی سو برس پہلے کی سول سروس کی تعلیم ہے جس میں زیادہ تر اس وجہ سے دینی تعلیم کا جوڑ لگایا گیا تھا کہ اس زمانے میں اسلامی فقہ ہی ملک کا قانون تھی اور اسے نافذ کرنے والے کے لیے فقہ اور اس کی بنیادوں کا جاننا ضروری تھا۔ آج ہم غنیمت سمجھ کر اسی کو اپنی دینی تعلیم سمجھتے ہیں-لیکن حقیقت میں اس کے اندر دینی تعلیم کا عنصر بہت کم ہے، کوئی عربی مدرسہ ایسا نہیں ہے جس کے نصابِ تعلیم میں پورا قرآن مجید داخل ہو۔ صرف ایک یا دو سورتیں (سورہ بقرہ یا سورہ آل عمران) باقاعدہ درساً درساً پڑھائی جاتی ہیں۔ باقی سارا قرآن اگر کہیں شامل درس ہے بھی تو صرف اس کا ترجمہ پڑھا دیا جاتا ہے۔ تحقیقی مطالع قرآن کسی مدرسے کے نصاب میں بھی شامل نہیں۔ یہی صورت حال حدیث کی ہے۔ اس کی باقاعدہ تعلیم جیسی کہ ہونی چاہیے، جیسی کہ محدث بننے کے لیے درکار ہے کہیں نہیں دی جاتی ۔ درس حدیث کا جو طریقہ ہمارے ہاں رائج ہے وہ یہ ہے کہ جب فقہی اور اعتقادی جھگڑوں سے متعلق کوئی حدیث آجاتی ہے تو اس پر دو دو تین تین دن صرف کر دیے جاتے ہیں۔ باقی رہیں وہ حدیثیں جو دین کی حقیقت کو سمجھاتی ہیں، یا جن میں اسلام کا معاشی ، سیاسی ، دینی اور اخلاقی نظام بیان کیا گیا ہے، جن میں دستور مملکت یا نظام عدالت یا بین الاقوامی امور پر روشنی پڑتی ہے۔ ان پر سے استاد اور شاگرد دونوں اس طرح رواں دواں گزر جاتے ہیں کہ گویا ان میں کوئی بات قابل توجہ ہے ہی نہیں ۔ حدیث اور قرآن کی بنسبت ان کی توجہ فقہ کی طرف زیادہ ہے،…………….. لیکن اس میں زیادہ تر ،بلکہ تمام تر جزئیات فقہ کی تفصیلات ہی توجہات کا مرکز رہتی ہیں۔ فقہ کی تاریخ، اس کے تدریجی ارتقاء، اس کے مختلف اسکولوں کی امتیازی خصوصیات، ان اسکولوں کے متفق علیہ اور مختلف فیہ اصول اور ائمہ مجتہدین کے طریق استنباط، جن کے جانے بغیر کوئی حقیقت میں فقہی نہیں بن سکتا، ان کے درس میں سرے سے شامل ہی نہیں ہیں۔ بلکہ ان چیزوں پر شاگرد تو درکنار استاد بھی نگاہ نہیں رکھتے۔

اس طرح یہ نظام تعلیم ہماری ان مذہبی ضروریات کے لیے بھی سخت ناکافی ہے ۔ جن کی خاطر اسے باقی رکھا گیا تھا۔ رہیں دنیوی ضروریات تو ان سے تو اس کو سرے سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔

@muhammadmoawaz_

Leave a reply