‏قدیم و جدید ہندوستان .تحریر : محمد صابر مسعود

0
37

ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام نے اپناقدم مبارک رکھا، جسکو موٴرخ اسلام علامہ قاضی محمد اطہر مبارکپوری رحمة اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق سترہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنہم اجمعین کی قدم بوسی کا شرف حاصل رہا ہے، جسکو ایک شہر (قنوج) کے بادشاہ سربانک کے معجزہ شق القمر کو دیکھ کر مشرف باسلام ہونے کا رتبہ ملا ہے، جس کی طرف حضرتِ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے برادر محترم ”حضرت حکم بن ابی العاص رضی اللہ عنہ“ کو ایک لشکر کا کمانڈر بنا کر ایک بندرگاہ ”تھانہ“ اور ”بھروچ“کے لئے روانہ کیا خلاصہ یہ کہ اس ملک کو ہزاروں سال قدیم ہونے کاشرف حاصل ہے۔

یہاں قبل مسیح اشوک بادشاہ سے لے کر مغل فرماں رواں بہادر شاہ ظفر (جنہوں نے ہندوستان کی محبت میں اپنے بیٹوں کے کٹے ہوئے سروں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر درد بھرے الفاظ میں ان کے لیے دعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ تیمور کی اولاد ایسے ہی سرخرو ہو کر باپ کے سامنے اپنا فرض ادا کرتی ہے ۔ اس کے بعد انگریزوں نے شہزادوں کے دھڑوں کو کوتوالی کے سامنے اور کٹے ہوئے سروں کو خونی دروازے پر لٹکا دیا تھا)
بہر کیف مختلف بادشاہوں نے حکومت کی، کبھی تو یہ ملک ظالم و جابر حکمرانوں کے زیر دست رہا تو کبھی نیک دل اور عادل ومنصف فرماں رواؤوں کے زیر نگیں رہا ۔ اس ملک میں جہاں ایک طرف راجہ داہر جیسا ظالم، عہد و پیمان توڑنے والا بادشاہ گزرا (جس نے اپنے بھتیجے چچ کو قتل کرایا اور اپنے بھائی کی بیوہ سے شادی کی جو کہ سرہند لوہانہ نامی ایک سردار کی بہن تھی، جس نے سلطنت کی لالچ میں ایک جوتشی کے کہنے پر کہ اس کی بہن چندرا کی شادی جس شخص سے ہو گی وہ اروڑ کی سلطنت کا حکمران بنے گا چندرا سے شادی کر لی) تو وہیں دوسری طرف اس کے غرور کو خاک میں ملانے کے لئے محمد بن قاسم جیسا رحم دل جرنیل آیا ( جنکو عراق کے گورنر حجاج نے ہندوستان کی طرف بارہ ہزار افواج مع اسباب و آلاتِ حرب و ضرب کے رجا داہر کی گوشمالی کے لئے روانہ کیا۔ جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اسلامی لشکر جرار کا راجا داہر کی فوج سے زبردست معرکہ ہوا اور راجا داہر مارا گیا۔ اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے راجا داہر کے غرور کو توڑ کر ہندوستان کی سرزمین کو ظلم و سرکشی سے پاک کردیا) اسی طرح ایک طرف اکبر نے دسویں صدی ہجری کے اخیر اور گیارہویں صدی ہجری کے آغاز میں شہنشاہیت کی ترنگ اور عقلیّت کے نشہ میں عقل وہوش سے بے نیاز ہوکر ”دینِ اسلام“ کے متوازی ”دین الٰہی“ کے نام سے ایک جدید مذہب کی تحریک چلائی (جسکا مختصر سا تعارف موٴرخ بدایونی نے کچھ اس طرح سے کرایا ہے کہ یہ برخود غلط مجتہد اور امام تھا، وحی الٰہی کو محال قرار دیتا، غیب اور عالم غیب سے متعلق ارشاداتِ نبوی علی صاحبہا الصلوٰة والسلام کی برملا تکذیب کرتا، فرشتوں، جنّات، معجزات، بعث بعد الموت، حساب و کتاب اور ثواب وعذاب کا کھلے لفظوں انکار کرتا تھا۔ اس الحاد و زندقہ میں صرف اکبر ہی گرفتار نہیں تھا؛ بلکہ اس کے ارد گرد رہنے والوں میں سے اکثر لوگوں کا حال یہی تھا، معجزاتِ نبوی کے ساتھ استہزاء کی کیفیت کو ملابدایونی نے یوں بیان کیا ہے کہ ”بھرے دربار میں ایک پیر پر کھڑے ہوکر معراجِ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا مذاق اڑاتا اور کہتا کہ میں جب اپنا دوسرا پیر اٹھاکر کھڑا نہیں رہ سکتا تو راتوں رات ایک شخص آسمان سے اوپر کیسے پہونچ گیا، پھر خدا سے باتیں بھی کیں اور جب واپس ہوا تو بستر تک گرم تھا“ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ مذاق واستہزاء کا یہی معاملہ شق القمر اور دیگر معجزات کے ساتھ بھی تھا) تو دوسری طرف اس کے نو ایجاد دین کا پردہ چاک کرنے کے لئے مجدد الف ثانی اسکے خلاف علمِ جہاد بلندکرتے ہوئے اٹھا اور خدا کے حکم سے کامیابی و کامرانی نصیب ہوئی ، اس ملک میں عالم گیر جیسا نیک دل بادشاہ بھی پیدا ہوا جس نے حکومت کرکے اسلام کی حقانیت کو عملاً ثابت کیا، اور جسے شاہجہاں نے ایک حسین تاج محل جیسا تحفہ دیا (جس نے ہندوستان کو اپنے نور سے منور کیا ہوا ہے لیکن آج اسلام دشمنی میں اسی تاج محل کو یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ غیر ہندوستانی متصور کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں) ، اور پر شکوہ لال قلعہ دیا (اسی قلعے کے دیوان خاص میں تخت طاؤس واقع ہے جہاں بیٹھ کر مغل بادشاہ ہندوستان کے طول و عرض پر حکومت کرتے تھے) ۔
ہمارا یہ ہندوستان کبھی سونے کی چڑیا کہلاتا تھا؛ لیکن آج جھوٹے، لٹیرے و گھوٹالے باز حکمرانوں کی وجہ سے کنگال و بھکمری کا شکار ہے کبھی تو یہ ظالم حکومت یوپی کے ایک ضلع مظفر نگر میں الیکشن جیتنے کے لئے ہندو مسلم فسادات کراتے ہوئے نظر آتی ہے توکبھی اڈانی و امبانی کے چاپلوسی کرنے کے لئے کسانوں پر ظلم کرتے ہوئے دیکھی جاتی ہے،کبھی کورونا کے نام پر مسلمانوں اور دلتوں کا قتل کر رہی ہے تو کبھی این آر سی کے نام پر مسلمانوں کے پڑھے لکھے طبقے کو بغیر کسی ثبوت کے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور کر رہی ہے بالآخر اب یہ ملک سونے کی چڑیا نہیں بلکہ خون کے پیاسوں کا مسکن اور اسلام دشمنوں کا اڈہ بن چکا ہے جن کا تحریک آزادی میں دور دور تک نام نظر نہیں آتا اور اسی بات کو بھلانے کے لئے کہ ان اسلام دشمنوں کا تحریک آزادی میں کوئ حصہ نہیں تھا تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ انگریزوں کے خلاف علم جہاد بلند کرنے والے یہی مسلمان تھے جنکو آج نفرت بھری نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے، کبھی تو انکو نیوز چینلز کے ذریعہ ہراساں کیا جا رہا ہے تو کبھی آر ایس ایس کے غنڈوں کے ذریعہ مابلنچنگ کی جا رہی ہے، کبھی سی اے اے کے تحت انہیں پاکستانی قرار دیا جا رہا ہے تو کبھی عورتوں کو انصاف دلانے کے نام پر مسلم پرسنل لاء بورڈ میں مداخلت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے الغرض یہ کہ مسلمانوں کو طرح طرح کی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔وہ ٹیپو سلطان بھی ایک مسلمان ہی تھا جس کی موت پر انگریزوں نے فخریہ کہا تھا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔ اسی ہندوستان کی آزادی کے لیے علماءِ حق نے شاملی کا میدان اپنے خون سے گرم کیا، لاہور سے دہلی تک کے درختوں کو اپنی جان کی قربانی دے کر آباد کیا، دریائے راوی میں بہے، لاہوری جامع مسجد میں لٹکائے گئے… اور ایک دن ان کےخون نے اثر دکھایا اور 1947میں آزاد ہوگیا ۔آزاد کیا ہوا، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ اسکی چھاتی کو دوحصوں میں چیر کر ایک ہی ماں باپ سے پیدا ہونے والے بھائیوں اوربہنوں کو الگ الگ ملک کا باشندہ بناکر ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنادیا۔ برسوں شیروشکر ہوکر ایک ساتھ رہنے والے بھولے بھالے انسان انگریز کے جال میں پھنس گئے، گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دینے والے ایک دوسرے کے دشمن بن گئے اور 1947ء میں تقسیم کے وقت وہ خون خرابہ ہوا کہ شیطان بھی شرمندہ ہوگیا، انسانیت کانپ اٹھی، ہر جگہ مہاجرین کی لاشیں نظر آنے لگیں، پنجاب کا گُروداس پور خون سے سرخ ہوگیا، انسانی لاشیں کتوں کی لاشوں کی طرح سڑکوں پر نظر آرہی تھیں، تعفن زدہ ماحول قائم تھا، لیکن لوگ خوشی کے مارے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ انگریز ہندوستان سے چلے گئے، ملک آزاد ہوگیا، ہم آزادہوگئے، لیکن شاید دونوں طرف کے رہنے والے باشندے اس بات سے نا بلد تھے کہ ہم تو رسماً آزاد ہوئے ہیں، جمہوریت کا نام نہاد طوق گلے میں لٹکا دیا گیا ہے جہاں مجبور محض ہوکر زندگی گزارنی پڑے گی، عوام کے پاس طاقت نہیں ہوگی، عوام محض مفلوک الحال ہوں گے، خیر کسی نہ کسی طرح 1947ء کا طوفان گزر گیا، عوام کو خوشی ہوئی کہ وہ آزاد ہوگئے اور خدا کا شکر ہے کہ آزاد ہیں؛ لیکن آزادی کے بعد سے ہی جس قوم نے آزادی کی خاطر سب سے زیادہ قربانیاں دیں، جہادِ آزادی کا فتوی دیا، اسے نشانہ بنانے کا عمل شروع ہوگیا، کانگریس نے اسے اپنے ووٹ بینک کی طرح استعمال کرنا شروع کیا تو بی جے پی اور دیگر پارٹیوں نے ا سے ڈرا دھمکا کر رکھا اور ایک دن ایسا آیا کہ آزاد ہونے پر افسوس ہونے لگا، کانگریس کی دوغلی پالیسی اور انگریزوں کے تلوے چاٹنے والے گروہ نے تاریخی بابری مسجد کو آئینِ ہند بنانے والے بابا صاحب امبیڈکر کی یومِ پیدائش پر شہید کرکے یہ پیغام دے دیا کہ مسلمان جمہوریت پر یقین رکھیں لیکن ہم نہیں رکھیں گے (اور آج تک وہ درندے کتوں کی طرح دندناتے پھر رہے ہیں جنمیں سر فہرست ہمارے پردھان منتری بھی ہیں) ، اور اسی بات کا ثبوت دینے کے لئے ہم ان کی مساجد و عبادت گاہوں کو مسمار کرتے رہینگے ، فسادات کے ذریعے ان کے اَملاک تباہ کرتے رہینگے اور 1992ء کے بعد فسادات کا نہ تھمنے والا ایک ایسا سلسلہ جاری ہوا جو ممبئی، بھیونڈی، ملیانہ، اورنگ آباد ، مرادآباد، بھاگلپور، بہار شریف اور گجرات کے خونی ماحول سے ہوتا ہوا مظفر نگر اور دلی تک پہنچا جہاں صرف ایک ہی قوم کو نشانہ بنایا گیا، اس کی معیشت کو تباہ کیا گیا، ان کی ہی ماں و بہنوں کی عصمت لو ٹی گئی اور ستم بالائے ستم تو یہ ہوا کہ ان ہی سے حب الوطنی کا ثبوت بھی مانگا جانے لگا۔۔۔ !

اب حال یہ ہے کہ جو لوگ آزادی کے لیےکبھی نہیں لڑے ان کی حکومت ہے اور جنہوں نے آزادی کے ذریعے اپنے خون سے سینچا وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں، ان کا ملک میں جینا دوبھر ہے، عدلیہ، مقننہ، حکومت، صحافت سب ان کے خلاف ہے، پھر کاہے کا جمہوری ہندوستان؟، اب ہندوستان جمہوری نہیں رہا، کچھ دن بعد عوام ۲۶؍جنوری کو جشنِ جمہوریت منائیں گے۔ اور یہ عہد کریں گے ’’بھارت میرا ملک ہے۔۔۔۔ہم سبھی بھارتی آپس میں بھائی بہن ہیں۔۔۔میں اپنے ملک سے محبت کرتاہوں۔۔۔۔اس کی باوقار اور مختلف النوع ثقافت پر مجھے ناز ہے۔۔۔۔میں ہمیشہ اس کے شایانِ شان بننے کی کوشش کرتارہوں گا۔۔۔۔میں اپنے والدین، اساتذہ اور سبھی گروؤں کی عزت کروں گااور ہر ایک کے ساتھ نرمی برتوں گا۔۔۔۔میں اپنے وطن اور اہلِ وطن کے ساتھ نیک نیتی کا حلف لیتا ہوں۔ ان کی بھلائی اور خوش حالی ہی میں میری خوشی ہے‘‘۔۔۔۔!اس عہد میں وہ لوگ بھی شامل ہوں گے جو سچے دل سے جمہوری ملک تسلیم کرتے ہیں، جمہوری دستور پر یقین رکھتے ہیں اور ملک میں امن و شانتی اور قومی یکجہتی کا پیغام عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور وہ لوگ بھی عہد کریں گے اور جشن جمہوریت منائیں گے جنہوں نے جمہوریت و دستور کا مذاق اڑایا،اتنا ہی نہیں بلکہ وہ لوگ ہر لمحہ اور ہرپل آئین اور دستور کو ختم کرکے سیکولر کی حیثیت کو چھین کر ہندو راشٹر میں بدلناچاہتے ہیں، کاش اے کاش! وہ عادل و منصف حکمراں ہمیں پھر نصیب ہوجائیں، تاکہ ہزاروں سال کی پرانی روایت باقی رہے اور ہم خوشحال رہیں ۔۔۔!

Leave a reply