یادرکھیں فوج ہے تو ملک ہے ،ورنہ منہ کھولے دشمن اور حواری کھاجاتے،ذرا نہیں پورا سوچیں
جیل جانے والے ملاقاتیوں کے پاس ذرائع نہ جیل انتظامیہ کو پتہ،دوسرا خط کہاں سے آگیا
سیاستدانوں میں مقبولیت کا نشہ اس قدر تیز اور تند ہوتا ہے کہ وہ تمام حدوں کو عبور کرجاتے ہیں پھر بعد میں اُس کو جوش خطابت کا نام دیا جاتا ہے، جمہوری عمل کو برقرا ر رکھنا سیاستدانوں کے مرہون منت ہوتا ہے، جلسوں ، چوراہوں ،گلی محلوں اور سوشل میڈیا پر پاک فوج جملہ اداروں اور عسکری قیادت پر جس طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں کیا کسی مہذ ب معاشرے میں اس طرح کی زبان اپنے قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف بولی جاتی ہے ؟ پاک فوج میں غازیوں اور شہیدوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے ، پولیس کے افسران اور پولیس کے نچلے درجے کے شہداء کی بھی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو اس وطن عزیز کی سلامتی اور قوم کی سلامتی کی خاطر شہید ہوئے، تاد م تحریر پاک فوج اور جملہ ادارے ملکی سلامتی کو برقرار رکھنے کے لئے دہشت گردوں کا مقابلہ کررہے ہیں، حکمران اور اپوزیشن ہوش کے ناخن لے، جمہوریت کی چوکھٹ پر سجدہ ریز جمہور تھوڑا نہیں پواسوچے ،غور کریں فکر کریں ، سیاسی گلیاروں میں باکردار با اخلاق شخصیات کا قحط ہے،سیاسی گلیاروں میں عصر حاضر میں باکردار بااخلاق شخصیات کا ظہور ممکن نہیں اب سیاسی گلیاروں میں چند سیاسی شخصیات ہی نظر آتی ہیں ،
افسوس حکمرانوں اور اپوزیشن پر ہے کہ گزشتہ دنوں امریکی کانگریس کے ایک رکن نے قیدی نمبر804 کی محبت میں پاک فوج اورجملہ اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا کیا یہ ایک خود مختار ریاست پر حملہ نہیں؟ چلیں امریکہ ،بھارت یا کوئی دوسرا ملک پاک فوج اور جملہ اداروں پر تنقید کرتا ہے تو سمجھ میں آتا ہے کیا جس ملک پر حکمرانی کررہے ہیں یا کرتے رہے آپ پر فرض نہیں کہ کسی بیرونی طاقت کو اس کا جواب دیں اگر آپ ان بیانات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں تو آپ اس وطن عزیز اور قوم کی خاطر شہید ہونے والوں کی کون سی خدمت کررہے ہیں؟ قیدی نمبر804 سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی منافع بخش انڈسٹری کا روپ دھار چکا ہے، جس پر وی لاگرز اور اینکر قوم کو مصروف رکھ کر ڈالرز کما رہے ہیں ، افسوس الیکٹرانک میڈیا بھی اب سوشل میڈیا پر انحصار کرنے لگا ہے، تمام میڈیا قیدی نمبر804 کے خط کے گرد گھوم رہا ہے، جس طرح امریکی صدر کے مشیر ایلون مسک بڑے یقین کے ساتھ لوگوں کو یقین دلاتا رہتا ہے کہ زمین ختم ہونے والی ہے اسی طرح ان خطوط کی داستان ہے خود الیکٹرانک میڈیا ،سوشل میڈیا ،وکلاء اور جیل جانے والے صحافی دعویٰ کرتے ہیں کہ جیل کے اندر داخل ہونے پر ان کی تلاشی لی جاتی ہے ،لکھنا بھی ممکن نہیں رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں سے موبائل لے لئے جاتے ہیں ایسی صورت میں خط کون لکھتا ہے ،کون باہر لاتا ہے بیرون ملک میں اخبارات میں مضمون کیسے شائع ہوتے ہیں تھوڑا نہیں پورا سوچئے؟