قلم کی خیانت ،تحریر: امان الرحمٰن

0
39

اگر دیکھاجائے تو ایک قلمکار کا دائیرہ کار بہت وسیع ہوتا ہے۔ وہ اپنے قلم سے بہت کچھ کر سکتا ہے زمانہ میں انقلاب لا سکتا ہے ۔ذہنی تربیت دے سکتا ہے۔اذنی تحریر کو مقصد سے آراستہ کر سکتا ہے اسکو مفید بنا سکتا ہے۔مگر آج کا قلمکار، آج کے قلم کی طرح یوز انڈ تھرو ہو گیا ہے ۔ یعنی پڑھو اور بھول جاؤ۔ تحریر بے مقصد، غیر دلچسپ، ناقابل فہم ہوگی تو کون قاری اس کو یاد رکھے گا۔ آج کے قلمکار کی تحریر ایسی ہوتی ہے کہ بس بس کیا پڑھے یاد نہیں رہتا۔ وجہ کیا ہے ؟ وجہ ایک ہی ہے اب سوشل میڈیا کا دور ہے اب جھوٹ پہلے جیسی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے صحافتی قوانین بنائے ہیں جن میں حقائق پر مبنی خبر ہی نشر کی جاتی ہے۔
پاکستان میں قومی سطہ کے بڑے بڑے میڈیا ہاؤس بھی ریٹنگ کے چکر میں ہر خبر کو بریکننگ نیوز بنا کر نشر کرتے ہیں اور اکثر خبریں صرف اِن الفاظ کے ساتھ نشر کی جاتی ہے "ذرائع کہ مطابق” لیکن ذرائع کا نام، اِدارے کا نام، کسی مستند صحافی کا نام لئے بغیر ہی اُس خبر کو سارا سارا دن ساری رات بار بار چلایا جاتا ہے۔ کیا یہ ٹحیک ہے کسی بھ ایسی ریاست کے لئے جس کے خلاف ہائبرڈ وار فیئر بھرپور انداز میں مسلط ہو۔؟پہلے اہل قلم اپنی قلم کو تلوار بنا لیتے تھے،سوئے ہُوئے ذہنوں کو جگانے کا کام لیتے تھے۔ نیز قلم سے نشتر کا کام لیتے تھے معاشرہ میں رائج فرسُودہ رسم و رواج اور برائیوں کو دور کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ مگر آج کا قلمکار، قلم تو اس کے لئے بھی تلوار ہے مگر زنگ آلود تلوار جس کو وہ ایک دوسرے پر نکتہ چینی کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ گویا ایک دوسرے کو کند چھری سے ذبح کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔

ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں لگا رہتا ہے۔ تنقید برائے تنقید کرتا چلا جاتا ہے۔ جس سے مُعاشرے میں برائی کو تقویت ملتی ہے مقابلہ بازی میں مدے سے ہٹ کر بحث میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اور یہ نا صرف مُعاشرے بلکہ ریاست کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ ایک صحافی جو قلم سے ایک دوسرے کی کاوشوں پر نکتہ چینی کرتا ہے۔ اور اس لفظی جنگ میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے بھی گریز نہیں کرتا اِس کا نقصان کسے ہوگا یہ جانے بغیر وہ اِس مقابلے میں بل آخر جھوٹ کا سہارا لینا شروع کر دیتا ہے جو برائی کی پہلی سیڑی ثاب ہوتی ہے اور یہاوہ صحافی اپنے قلم کے ساتھ خیانت کر بیٹھتا ہے ضمیر کو بھی جھوٹی تسلی دے کر سلانے لگتا ہے۔ مگر حرام کا ایک لُقمہ حلق میں جاتے ساتھ حلال رزق سے چند لمحوں میں قوسوں دُور ہوجاتا ہے۔
پاکستان اِس وقت ففتھ جنریشن وار جیسی جنگ کی زد میں ہے اور میڈیا اِس جنگ میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے جہاں فیک نیوز کی ایک لمبی لائن لگ جاتی ہے جو ریاست مخالف استعمال ہوتی ہے ایسے مشکل حالات میں میڈیا ریاست کا ساتھ دیتا ہے جبکہ ہمارا میڈیا غیر ملکی ہتھکنڈوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر بضد ہے۔

‏ایسا صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے کہ حکومت کہہ رہی ہے سچ بولیں اور یہ جاہل کہتے ہیں نہیں ہمیں یہ منظور
‏فیصلہ ہونے والا ہے اس قوم نے تباہ ہونا ہے یا ترقی یافتہ عظیم قوم بننا ہے
اللہ کو ہماری ضرورت نہیں ہم نہیں سدھریں گے تو ہم سے بہتر لوگ آجائیں گے
احتجاج ہورہا ہے کہ جھوٹ کی آزادی دو یہ وہ گناہ ہے جس پہ اللہ نے خود لعنت فرمائی ہے
جو گروہ جیتے گا وہ ملک کے مستقبل کا تعین کردے گا۔
میڈیا میں جھوٹی خبروں اور خواہشات پہ مبنی جھوٹے من گھڑت تجزیوں کی روک تھام کے لیے کوئی قانون نہیں بننے دیں گے ۔ صحافی
عدالتوں میں بہتری اور اصلاحات کے لیئے کوئی قانون نہیں بننے دیں گے- وکلاء
الیکشن کمیشن میں بہتری کے لیے کوئی قانون نہیں بننے دیں گے۔ الیکشن کمیشن
مگر نیا پاکستان کیوں نہیں بنا اس کا جواب عمران خان کو دینا ہو گا۔ بہت خُوب
جب آپ لوگو جھوٹ نہیں بولیں گے تو آپ کو کسی بات کا ڈر نہیں ہونا چاہئے
مگر وہ کہتے ہیں نا چور کی داڑھی میں تنکا
ان شاءاللہ یہ ہو کر رہے گا۔
@A2Khizar

Leave a reply