قتل کے کیس میں بے گناہ گرفتار فتح تیس سال سے انصاف کا منتظر

0
58

قتل کے کیس میں بے گناہ گرفتار فتح تیس سال سے انصاف کا منتظر

آج آپکی خدمت میں ایک عجیب قسم کے عدالتی ظلم و بربریت کی تفصیلات کے کر حاضر ہوا ہوں جسکی مثال آپکو شاید پاکستان کی پوری تاریخ میں نہ ملے گی ۔ اس شخص کا نام فتح محمد ہے جس نے 139 سال جیل میں گزارنے ہیں ۔ یہ سزا سن کر شاید آپ کو لگے کہ یہ شخص شاید سانحہ اے پی ایس کا زمہ دار ہوگا یا نہیں شاید یہ شخص سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا مرکزی ملزم ہوگا جس میں ڈھائی سو سے زائد فیکٹری ورکرز جن میں خواتین بھی تھیں زندہ جلائے گئے یا شاید یہ راؤ انوار سے بھی بڑا کوئی مجرم ہوگا جسکے لیے لوگوں کو تاوان کی رقم کے لیے اغوا کرنا اور پھر انہیں جعلی مقابلوں میں مارنا معمولی بات ہوگی یا شاید اسکے کیس زرداری کے سوئس اکاؤنٹس اور نواز کے پانامہ کیسز سے بھی بڑے کیس ہونگے یا بڑی کرپشن کی ہوگی اس نے یا شاید کلبھوشن نیٹورک کا اہم رکن ہوگا جس نے پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کی ہونگی اگر یہ بھی نہیں تو ممکن ہے پاکستان کو دولخت کرنے کا زمہ دار یہی شخص ہوگا کیونکہ کرپشن ، غداری ، دہشت گردی کے الزام میں پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ میں بھی ایسی سزا کسی کو نہ سنائی گئی ۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے اس شخص کو 33 سال قبل جنرل ضیاء الحق کی قائم کردہ سپیشل عدالت نے 1988 دہشت گردی کے مختلف الزامات کے تحت عمر قید ، تین بار سزائے موت، جرمانہ اور جائیداد کی ضبطگی کی سزا سنائی ۔

شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری کی ایسی اعلی مثال پاکستان کے عدالتی نظام نے شاید ہی کبھی پیش کی ہوگی . کیونکہ اس دور میں تو پاکستان میں دہشت گردی بھی نہ تھی۔ فتح محمد کی سزائے موت کو ایک سال بعد بینظیر حکومت نے ختم کیا۔ باقی سزائیں برقرار رکھی گئیں ۔ یہاں قارئین کے لیے ایک عدالتی اصطلاح کی وضاحت کردوں کہ جب زیادہ سزائیں سنائی جاتی ہیں تو عموما انہیں concurrent کردیا جاتا ہے یعنی بڑی سزا عمر قید کاٹنی ہوتی ہے جو کہ پچیس سال ہے باقی ساتھ ساتھ شمار ہونے کے سبب اسی میں شامل ہوجاتی ہیں۔ ان مقدمات میں ﻓﺘﺢ ﻣﺤﻤﺪ ﺳﻤﯿﺖ ﭼﺎﺭ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﭘﺮ ﻣﻘﺪﻣﺎﺕ ﺑﻨﺎﮰ ﮔﮱ تھے .

.1 ﻣﻼ ﻋﺒﺪﺍﻟﻘﯿﻮﻡ ﻭﻟﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﺩﺍﺩ ﺳﺰﺍ : 214 ﺳﺎﻝ 28 ﺳﺎﻝ ﻗﯿﺪ ﮐﺎﭨﯽ 2014 ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺲ concurrent ﮨﻮ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﺍ
.2 ﻋﺒﺪﺍﻟﺼﻤﺪ ﻭﻟﺪ ﺑﻨﺎﺭﺱ ﺳﺰﺍ : 200 ﺳﺎﻝ . 25 ﺳﺎﻝ ﻗﯿﺪ ﮐﺎﭨﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ جیل میں ﺧﻮﺩﮐﺸﯽ ﮐﯽ
.3 ﻣﺤﻤﺪ ﮔﻞ ﻭﻟﺪ ﺷﯿﺦ ﻣﺤﻤﺪ . ﺳﺰﺍ : 200 ﺳﺎﻝ . 12 ﺳﺎﻝ ﻗﯿﺪ ﮐﺎﭨﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮨﻮﺋﯽ
.4 ﻓﺘﺢ ﻣﺤﻤﺪ ﻭﻟﺪ ﺭﺍﺯﻣﺤﻤﺪ ﺳﺰﺍ : 139 ﺳﺎﻝ 34 ﺳﺎﻝ ﻗﯿﺪ ﮐﺎﭦ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺣﺎﻝ ﻗﯿﺪ ﮨﮯ

ﮐﯿﺲ ﮐﮯ ﻣﺮﮐﺰﯼ ﻣﻠﺰﻡ ﻋﺒﺪﺍﻟﻘﯿﻮﻡ ﮐﮯ ﺍﮨﻞ ﺧﺎﻧﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﮔﺊ ﺍﭘﯿﻞ 482 2014/ ﺳﭙﺮﯾﻢ ﮐﻮﺭﭦ ﮐﮯ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﺑﺘﺎﺭﯾﺦ 2014-9-19 ﻣﯿﮟ ﻋﺒﺪﺍﻟﻘﯿﻮﻡ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺳﺰﺍﺅﮞ ﮐﻮ concurrent ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ . ﺍﺱ ﺗﻔﺼﯿﻠﯽ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﻋﺒﺪﺍﻟﻘﯿﻮﻡ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﮐﻮ نہ صرف concurrent ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﮍﯼ ﺳﺰﺍ ﺟﻮ ﮐﺴﯽ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﻗﺪﺭﺗﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﺭﯼ ﻧﮧ ﮨﻮﺳﮑﺘﯽ ﮨﻮ ﮐﮯ ﺑﺎﺑﺖ ﭼﻨﺪ ﺭﯾﻤﺎﺭﮐﺲ ﺑﮭﯽ ﺩﺋﯿﮯ ﮔﺌﮯ ﺟﻮ قارئین کی ﺧﺪﻣﺖ میں پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں ﺻﻔﺤﮧ ﻧﻤﺒﺮ 5 ﭘﺮ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ

for doing substantial justice in a true sense in hardship cases like the present one, technicality of law and rule shall not operate as an absolute bar in the way of court because giving preference to the technicality of law would defeat substantial justice and denial of justice to a person entitled to it, would be worst kind of treatment to be meted out to him and that too by the apex court of the country.
If the sentences are allowed to run consecutively, the appellant / appellants as earlier discussed would meet natural death during imprisonment. This undeniable fact was even not disputed by the learned counsel for the state. The very object for which the Govt. Of Pakistan commuted the sentences of death to life imprisonment and the benefit so accrued to the accused would be denied to him / them in this way and that concession, thus given, would stand nowhere and may evaporate within no time like air bubbles vanish in the air within a twinkle of an eye.

ﺳﭙﺮﯾﻢ ﮐﻮﺭﭦ ﮐﮯ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺑﮩﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻣﻘﺪﻣﮯ ﮐﮯ ﻣﺮﮐﺰﯼ ﻣﻠﺰﻡ ﮐﻮ 28 سال بعد ﺭﯾﻠﯿﻒ مل جاتا ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﻣﻘﺪﻣﮯ ﮐﮯ ﺑﻘﺎﯾﺎ ﻣﻠﺰﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ تو پہلے ہی ﺧﻮﺩﮐﺸﯽ ﮐﺮچکا ہوﺗﺎ ﮨﮯ , ﺍﯾﮏ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻃﺒﻌﯽ ﻣﻮﺕ ﻣﺮچکاہوﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮﯼ ﺑﭻ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﻠﺰﻡ ﮐﻮ ﺍﯾﮍﯾﺎﮞ ﺭﮔﮍ ﺭﮔﮍ ﮐﺮ ﺟﯿﻞ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ . ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﮈﺑﻞ ﺳﭩﯿﻨﮉﺭﮈ ﻧﮩﯿﮟ . ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺎ ﻭﺟﮧ ﮨﻮﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﻠﺰﻡ ﮐﻮ ﺭﯾﻠﯿﻒ ﺍﺱ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻣﻠﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﮩﻨﮕﺎ ﻭﮐﯿﻞ ﮐﺮﮐﮯ ﺭﮨﺎﺋﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻣﻘﺪﻣﮯ ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻣﻠﺰﻡ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺯ ﮐﮯ ﺭﯾﻠﯿﻒ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﻖ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﺭﮨﺘﺎ ہے ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﻣﮩﻨﮕﺎ ﻭﮐﯿﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﻗﺎﺻﺮ ﮨﮯ.

کیس کے مرکزی ملزم عبدالقیوم کی رہائی کے بعد فتح محمد کی سزاؤں کو کنکرنٹ کرنے کی اپیل عدالت کی جانب سے خارج کردی جاتی ہے اور چند سطروں پر مبنی عدالتی فیصلہ سنایا جاتا ہے جس میں جج پٹیشن مسترد کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ
Petitioner seems to have been convicted in different cases …

Seems to have been
جج کے یہ الفاظ خود ہی گواہی دے رہے ہیں کہ خود اسے بھی یقین نہیں کہ فتح محمد پر مختلف کیسز ہیں یا ایک ہی کیس میں مختلف الزامات ، جبھی اس نے یہ الفاظ استعمال کیے۔ لیکن اس blunder پر پھر بھی سوال اس لیے نہیں اٹھایا جاسکتا کیونکہ فتح محمد نہ ہی اے پی ایس سانحے کا زمہ دار ہے نہ ہی راؤ انوار، نہ ہی نواز شریف ، زرداری یا کوئی اور بااثر شخصیت جو عدالتی فیصلہ خرید سکنے کی اہلیت رکھتا ہو۔

پاکستان کے عدالتی نظام نے جس قسم کی ناانصافیوں کی مثالیں قائم کی ہیں وہ ہم میڈیا پر روز ہی دیکھتے ہیں ۔ ایسے بھی کیس میڈیا میں رپورٹ ہوئے ہیں کہ ایک شخص عمر قید کاٹ چکا ہوتا یا اسے پھانسی پر لٹکا دیا گیا اور بعد میں سپریم کورٹ کا حکمنامہ پہنچا کہ مذکورہ شخص بے قصور تھا اور اسے بری کردیا گیا یا ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنی سزا عمر قید کاٹ چکا ہوتا اور رہائی کے قریب ہوتا لیکن اسکی اپیل کا فیصلہ ہائی کورٹ میں زیر التوا رہتا ہے اور رہائی سے قبل اسکے کیس کو دوبارہ نچلی عدالت میں نئے سرے سے چلانے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی عوام عدالتی نظام سے مایوس ہے پچھلے کئی سالوں سے پاکستان میں اقدام قتل کے واقعات سالانہ آٹھ ہزار سے زائد ہیں۔ اسی طرح بچوں اور خواتین کے خلاف زیادتی کے واقعات میں بھی پچھلے چند سالوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے ۔ صرف صوبہ پنجاب میں سال 2019 میں ریپ و جنسی زیادتی کے رجسٹرڈ کیسز کی تعداد 3881 رہی ۔ یہ صرف رجسٹرڈ کیسز ہیں جبکہ بدنامی کے ڈر سے ایک کثیر تعداد کیس رجسٹر نہیں کرواتی کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام سے انصاف ملنا ناممکن ہے ۔

Leave a reply