قومی ہیرو کے ساتھ رویہ کیسا !  تحریر :  احسن ننکانوی

قوم حیران ہے کہ نعمان نیاز نے قومی ہیرو شعیب اختر کے ساتھ کیا کردیا، اور میں حیران ہوں کہ قومی ہیرو کی بات کرنے والے لوگ حقیقت سے اتنے لاعلم کیوں ہیں؟ پاکستان میں قومی ہیرو اسے سمجھاتا جاتاہے جو اقتدار کی کرسی پر براجمان ہواورغلاموں کی توہین کرکے اپنی رعونت کی تسکین کرتاہو۔میں پی۔ٹی۔وی نہیں دیکھتا، اس لیے مجھے علم نہیں تھا کہ نعمان نیاز کیا چیز ہے۔ شعیب اختر سے مگر ہر وہ شخص واقف ہے جو کرکٹ کی معمولی سی شد بد رکھتا ہے کیونکہ پوری دنیا میں اس کے علاوہ کوئی اور شخص نہیں جسے سومیل یا ایک سو اکسٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سےگیند بازی کرنے کا منفرد ترین اعزاز حاصل ہے ۔ وہ اس فن کا ”اکلوتا” فنکار ہے اور اس کی شناخت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ نعمان نیاز کو اتنا منفرد مقام حاصل کرنے کے لیے شاید سات جنم بھی کافی نہ ہوں۔ مجھے لکھنا نہیں چاہیے مگر لکھنا پڑ رہا ہے شعیب اختر کے ساتھ نعمان نیاز کا نام لکھتے ہوئے نہ جانے کیوں”چہ پدی چہ پدی کا شوربہ” والی کہاوت یاد آرہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ان دونوں کے درمیان ہونے والے افسوس ناک واقعہ کی گونج سنائی دی تو میں نے بھی ”گیم آن ہے” نامی پروگرام کا کلپ دیکھا۔ مجھے شدید حیرانی ہے کہ شعیب اختر میں اتنی قوت برداشت کہاں سے آگئی؟ اس کا رویہ مگر قوت برداشت نہیں، انتہا درجے کی اعلیٰ ظرفی کا مظہر تھا۔ نعمان نیاز کی فرعونیت اور کمینگی کا واحد جواب ایک زوردار تھپڑ ہونا چاہیے تھا جو اس کی اصل اوقات یاد دلا دیتا۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ ہم آج تک ایک قوم کی صورت متحد نہیں ہوسکے۔ ہم ایک منتشر گروہ ہیں اور قومی غیرت کے تقاضے نبھانے کے عادی بن ہی نہیں سکے۔ جو شخص قومی ہیرو کی توہین کرتا ہے، وہ پوری قوم کی توہین کرتا ہے کیونکہ ہیرو دراصل قوم کی تاریخ، ثقافت اور غیرت کی نمائندگی کرتا ہے۔قوم بہت دور کی بات ہے، ہم اپنے ساتھیوں کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہونے سے بھی کتراتے ہیں۔ اس پروگرام میں شعیب اختر کے ساتھ پاکستان کے دوسرے کرکٹرز بھی موجود تھے، انھوں نے کس دل گردے سے نعمان اعجاز کی فرعونیت برداشت کی؟ کس معاوضے نے انھیں شعیب اختر کا ساتھ دینے سے روکا۔ شعیب اختر نے معذرت چاہتے ہوئے پروگرام چھوڑ کر اٹھنے اور استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تو نعمان نیاز نے ایک ثانیے کے لیے بھی توجہ دینا گوارا نہیں کیا اور انتہائی بے نیازانہ انداز میں اپنا سکرپٹ جاری رکھا۔ اس کے نزدیک شعیب کا اٹھ جانا کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا تھا۔ میں گمان کر بیٹھا تھا کہ یہ کلپ دیکھ کر پاکستان کی نمائندگی کرنے والے کرکٹرز سرکاری ٹی۔وی کے بائیکاٹ کا اعلان کرچکے ہوں گے۔ ایسے اقدامات کے لیے مگر قومیت کا عنصر ضروری ہے، اور بدقسمتی سے پاکستان میں اس عنصر کا فقدان ہے۔ ہم اگر قوم ہوتے تو اس سانحے کے فوراً بعد نعمان نیاز کو اپنا بستر گول کرنا پڑتا۔اُسے مگر علم ہے کہ پاکستان کے اصل ہیرو اہل اقتدار ہیں، اور وہ ان کی نمائندگی کررہا ہے۔ اس کی پشت پر یقیناً کوئی طاقتور شخصیت ہوگی، لہٰذا قومی ہیرو کی بات کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ سنا ہے کہ قومی حکومت نے انکوائری کمیٹی بنادی ہے۔ کس چیز کی انکوائری؟ کیا پی۔ٹی۔وی انتظامیہ اندھی اور بہری ہے؟ جو کچھ ہوا آن ایئر ہوا، سب نے دیکھا، سب نے سنا، کمیٹی کس چیز کی تحقیق کرے گی۔ کیا نعمان نیاز کی زبان سے الفاظ اس کے ہمزاد نے ادا کیے تھے؟ یا یہ اس کی بدروح کی کارستانی تھی؟ اس نے شعیب اختر کے جس بیانیے پر اتنے مذموم رویے کا اظہار کیا، وہ کیا اس پروگرام کا حصہ نہیں ہے، اسے سننے میں کیا دشواری ہوسکتی ہے۔ کچھ بزرجمہر پی۔ٹی۔وی اور شعیب اختر کے اختلافات کی بات کررہے ہیں، کچھ پردے کے پیچھے ہونے والی گفتگو کا رشتہ اس واقعے سے جوڑ رہے ہیں، معتبر صرف وہ ہے جو آن لائن نشر ہوا، اور سب نے دیکھا۔کسی ایک کو قصوروار ٹھہرانے کے لیے پروگرام کی ریکارڈنگ کافی سے زیادہ ہے۔ اس سلسلے میں صرف ایک سوال کافی ہے۔ کیا کسی ٹی وی اینکر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مہمان کو اختلاف رائے یا اندازِ گفتگو کی بنیاد پر پروگرام چھوڑنے کا حکم دے دے؟ انکوائری کے مثبت بتیجے کی توقع رکھنے والے مگر احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ قومی ہیرو صرف عوام کے دل میں رہتے ہیں، اور اہل اقتدار عوام کے دلوں کو کانچ کا کھلونا سمجھتے ہیں، جب تک چاہا ل بہلایا، جب چاہا تب توڑ دیا۔ ارباب اقتدار اگر شعیب اختر کی تذلیل کو انکوائری کی بھینٹ چڑھا کر پی جاتے ہیں تو شعب اختر کی حیثیت متاثر نہیں ہوگی، پی۔ٹی۔وی اور وزارت اطلاعات کا قد کاٹھ ضرور سکڑ جائے گا جسے دیکھنے کے لیے پہلے ہی خوردبین کی ضرورت محسوس ہوتی ہے..
 

Comments are closed.