قوموں کے مزاج تحریر:حبیب الرحمٰن خان

0
38

شاید پاکستان اور دیگر ممالک کے بیشتر افراد یہ نہیں جانتے کہ سعودی عرب کا ہر شہری اس کا باقاعدہ شہری نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس شہریت نہیں ہے
غلط فہمی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ وہاں ہر شہری کے پاس شناختی کارڈ یعنی شہریت کارڈ ہے وہاں کے شہریوں کو جو شناختی کارڈ دیا جاتا ہے اسے عربی میں بطاقۃ الھویۃ کہتے ہیں لیکن اسے تابعیۃ بھی کہتے ہیں جس کا مطلب حکومت وقت کے تابع ہونا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر کوئی سعودی شخص حکومت وقت کی تابعداری سے انکار کر دے تو اس سے یہ کارڈ اور متعلقہ سہولیات واپس لے لی جاتی ہیں
اور اس سے بھی اہم بات کہ آج کے دور میں جب کہ غلام رکھنے یا غلام ہونے کے بارے میں دنیا میں سوچ نہیں پائی جاتی
لیکن سعودیہ میں آج بھی آل عبد (خاندان غلاماں) ہیں۔
لیکن یہ غلام صرف آل سعود کے پاس ہیں۔آسان الفاظ میں سعودی عرب کے پہلے فرماں روا عبدالعزیز کے خاندان کے پاس غلام ہیں لیکن عوام کو اختیار نہیں کہ وہ اس بابت حکومت سے سوال کر سکے۔ سعودی عرب کے دوسرے فرماں روا شاہ سعود بن عبدالعزیز جب فوت ہو گیا تو شاہ فیصل بن عبد العزیز نے ریاض شہر کے نواح میں واقع ایک علاقے (ناصریہ) میں شاہ سعود کی 63 بیویوں اور شادی شدہ بچوں کے لیے گھر بنانے کا حکم دیا۔ جب یہ گھر بننے لگے تو مزید 40 خواتین شاہ سعود کے دستخط شدہ حکم نامے کے ساتھ سامنے آ گئیں اس طرح شاہ سعود کی 103 بیویوں کے لیے محلات تعمیر کیے گۓ۔ قانون اسلام کے مطابق تو ہر شخص چار شادیاں کر سکتا ہے۔ شاہ سعود نے بقیہ خواتین کے ورثاء کو رقم ادا کر کے یہ خواتین اپنے حرم میں شامل کیں۔ المختصر یہ خواتین بھی غلام تھیں۔ لیکن آج بھی سعودی عرب کے شہری کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اس بابت سوال کر سکے
جبکہ یہاں پاکستان میں تو ہر شخص غیر متعلقہ معاملات میں پاؤں پھنساۓ بیٹھا ہے۔ اسے روکنے والا کوہی بھی نہیں۔
لیکن ہم اس آزادی سے پھر بھی خوش نہیں
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب کوہی ٹولہ پاکستان کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوۓ پاکستانی قوانین کے برخلاف کسی معاملے کی ڈیمانڈ کرتا ہے اور حکومت وقت اس ٹولے کو بزور طاقت چپ کرانے کی بجاۓ مذاکرات کرتی ہے۔

جہاں ریاست کمزور ہو وہاں مختلف مافیاز وجود میں آ کر غیر قانونی طور پر اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں اور ریاست کے اہم ستونوں کو بذریعہ رشوت یا دھونس دھاندلی کے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں
اس نظام کو درست کرنے کے لیے ایسے ہی کسی طاقتور گروپ ، تنظیم یا جماعت کی ضرورت ہے جو بزور بازو قانون کی عملداری کو یقینی بناۓ
ہوسکتا ہے کہ ان بے رحمانہ اقدامات کی وجہ سے کچھ چیدہ بے گناہ افراد بھی اس قانون کی زد میں آہیں لیکن ملک و قوم کی بقاء کے لیے ایسی قربانی دینی ہی پڑے گی
متفق ہونا ضروری نہیں
#حبیب_خان

Leave a reply