خادم اعلیٰ کےدورمیں نقصان میں جانےوالاقائداعظم سولر پاورپلانٹ اب منافع میں آگےآگے،شاندارکارکردگی کی رپورٹ
لاہور :خادم اعلیٰ کے دورمیں نقصان میں جانے والا قائد اعظم سولر پاور پلانٹ اب منافع میں آگے آگے ،اسے کہتے ہیں تبدیلی ،اطلاعات کے مطابق وزیر توانائی پنجاب ڈاکٹر اختر ملک کو قائداعظم سولر پاور پلانٹ کی مالی سال 2019-20 کی کارکردگی رپورٹ پیش کردی گئی ہے۔
ترجمان انرجی کے مطابق وزیر توانائی کی مسلسل نگرانی اور بہترین انتظامی امور کی بدولت قائداعظم سولر نے رواں مالی سال میں شاندار کامیابیاں سمیٹیں۔ انتظامی معاملات میں من پسند لوگوں کو نوازنے کی روش کا خاتمہ کرکے 62 ملین روپے کی بچت کی۔
اختر ملک کے مطابق 2.44ارب روپے منافع کمایا جو کہ گزشتہ برس کی نسبت 37 فیصد ذیادہ ہے۔نیپرا کے ٹارگٹ سے 7.6فیصد زیادہ بجلی پیدا کی۔ میں اس شاندار کامیابی پر ایڈیشنل چیف سیکرٹری ارم بخاری، سیکرٹری انرجی ثاقب ظفر، قائداعظم سولر کے قائم مقام سی ای او بدرالمنیر اور محکمہ توانائی کی پوری ٹیم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
انھوں نے مزید کہا کہ الحمدللہ ملکی خزانے کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچایا ہے۔ یہ عوام کا پیسہ ہے اور عوام پر ہی خرچ ہوگا۔ اختر ملک کا کہنا تھا کہ قومی خزانے کی پائی پائی کے امین اور جوابدہ ہیں۔
یاد رہے کہ 2018ء میں چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے قائداعظم سولر پاور پلانٹ اور پاور کمپنیوں پر ازخود نوٹس لیا تھا۔ چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے قائداعظم سولر پاور پلانٹ پرآنے والی لاگت، بجلی کی پیداوار، اخراجات اور کارکردگی کی تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے قائد اعظم سولر پاور پلانٹ اور پاور کمپنیوں پر از خود نوٹس لیتے ہوئے چیف سیکرٹری پنجاب اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو مکمل رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کیا جبکہ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تھے کہ قائداعظم سولر پاور پلانٹ اور پاور کمپنیوں پر اربوں روپے خرچ کیے گئے، لیکن مطلوبہ نتائج کیا نکلے؟
یاد رہےکہ خادم اعلیٰ کے دورمیں قائد اعظم سولر پارک ،چاردیواری کا ٹھیکہ 1ارب 60کروڑ،افتتاحی تقریب پر1کروڑ خرچ ہوئے،جس پرقومی احتساب بیورو(نیب) نے قائداعظم سولر پاور میں مبینہ کرپشن، اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے غلط کمپنی کو ٹھیکہ دینے اور غیر معیاری سولر پینلز نسب کرنے پر سابق چیف ایگزیکٹو افسر قائداعظم سولر پاور کمپنی نجم شاہ اور سابق سیکرٹری انرجی پنجاب عثمان اختر باجوہ کو حتمی تحقیقات کے لئے بلالیا تھا ۔
ذرائع کے مطابق پنجاب حکومت نے 2013 میں بہاولپور میں 10 ہزار ایکڑز پر قائداعظم سولر پارک قائم کیا ۔اکتوبر 2013 میں پنجاب حکومت نے قائداعظم سولر پاور کمپنی بنائی اور پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس کے ایک جونیئر افسر نجم شاہ کو بھاری مراعات پر اس کا سربراہ لگایا گیا تھا۔
پنجاب حکومت نے زمین کی لیولنگ، پانی کی فراہمی، دفاتر کی تعمیر اور چاردیواری کا کنٹریکٹ ایک ارب 60 کروڑ میں پنجاب انڈسٹریل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی کو دیا گیا ۔ مئی 2015 میں 16 ارب60 کروڑ کی حکومتی سرمایہ کاری سے 500 ایکڑز پر100 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے لئے پہلا پلانٹ لگایا گیا جس کا افتتاح سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ایک پروقار تقریب میں کیا جس پر سرکاری خزانہ سے ایک کروڑ کے اخراجات برداشت کرنا پڑے تھے ۔
ستمبر 2015 تک اس پلانٹ کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت پر اپوزیشن اور میڈیا کی طرف سے بہت سے سوالات اٹھائے گئے جن کے جواب میں سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ایک بھر پور پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ یہ پلانٹ 100 میگا واٹ کے بجائے 17 سے 19 میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے جو نیشنل گریڈ میں شامل کی جارہی تھی ۔
نومبر 2015 میں محکمہ انرجی پنجاب نے وزیر اعلیٰ کو ایک سمری ارسال کی کہ یہ پلانٹ نیپرا کی طرف سے منظور ٹیرف 12 سینٹ فی یونٹ سے مہنگی بجلی پیدا کررہا ہے لہٰذا اس کو نجی شعبہ کو فروخت کردیا جائے اس سمری کے بعد ایک نجی بنک کو فنانشل ایڈوائزر تعینات کیا گیا جن نے قائداعظم سولر پاور پر کل اخراجات کا تخمینہ 16 ارب 60 کروڑ، نیٹ اثاثوں کا تخمینہ 4 ارب 50 کروڑ، اس کے ذمہ کل واجب الادا رقم کا تخمینہ 12 ارب 10 کروڑ جبکہ نیٹ قرض 7 ارب 70 کروڑ لگایا تھا ۔
پنجاب کی سابق حکومت نے نجکاری کے لئے بین الاقوامی میڈیا میں اس کا اشتہار دیا گیا جس پر 9 پارٹیوں نے بڈنگ کے لئے پری کوالیفائی کیا تھا۔نجکاری کا عمل ابھی شروع ہوا تھا کہ نیب کو منصوبے میں بھاری کرپشن کی شکایات موصول ہوئی اور انکوائری شروع ہوگی اور نجکاری کا عمل فوری طور پر روک دیا گیا تھا۔ نیب نے پنجاب حکومت سے منصوبے کا ریکارڈ طلب کیا تو اس بات کا انکشاف ہوا کہ اس منصوبے کے بارے میں محکمہ انرجی کے پاس کوئی بھی سمری برائے منظوری وزیر اعلیٰ، میٹنگز کی کارروائی اور ٹھیکے دینے کے متعلق کاغذات موجود ہی نہیں تھے۔
محکمہ انرجی کے ایک سینئر افسرکے مطابق پارک میں غیر معیاری سولر پینلزنصب کرنے سے اس منصوبے کی پیداوار مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں جبکہ جگہ کے غلط تعین کی وجہ سے پینلز کی صلاحیت اس وقت کم ہوجاتی ہے جب ہوا سے اس پر ریت کی تہہ چڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے فی یونٹ پیداواری لاگت 20 روپے سے اوپر جاچکی ہے ۔ منصوبے سے 18 سے 20 میگا واٹ بجلی اوسطاً پیدا ہورہی تھی ۔