قربانی اور درد انسانیت . تحریر:حسن ساجد

0
24

کسی حاجت مند اور مسکین کی مداد کرنا اور کسی بے سہارا کا سہارا بننا انبیاء اکرام علیھم السلام و صحابہ اکرام رضوان اللہ علیھم کی سنت ہے۔ اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق کے جو بڑے مقاصد بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کو ہمدردی، بھائی چارے، باہمی خلوص اور حسن معاشرت کو قائم کرنے کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ انسانیت سے پیار اور انسان کے درد کا درماں ہونا ایسا عمل ہے جس کے لیے اللہ پاک کے ہاں اجرعظیم ہے۔ لیکن انسانیت کی خدمت، فلاح و بہبود اور ہمدردی کے اس عمل کا سنت ابراهیمی یعنی قربانی سے موازنہ قطعی طور پر درست فعل نہیں ہے. اللہ کی رضا اور سنت حضرت ابراہیم و حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ادا کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں قربانی کرنا ایک ایسا عمل ہے جو ہر اس مسلمان پر لازم ہے جو اسکی استطاعت رکھتا ہے. اسلام اور ہماری ثقافتی روایات دشمن قوتیں ہماری نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ یہی لوگ آج کل قربانی کے عمل کا دیگر فلاحی کاموں سے موازنہ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ یہ لوگ میڈیا اور سوشل میڈیا پر قربانی کرنے سے روکنے کیلیے مختلف اقسام کی تاویلات پیش کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ دو جس رقم سے قربانی کا بڑا سا جانور خریدنا ہے بہتر ہے کہ اس رقم سے کسی غریب کی بیٹی بیاہ دو یا اگر قربانی تو نفس کی ہے اس بار جانور قربان کرنے کی بجائے انا قربان کرو اور کسی حاجت مند کی حاجت روائی کر دو وغیرہ وغیرہ. یہ لوگ ایسے مستند دلائل اور چکنی چپٹی باتوں سے قائل کرتے ہیں کہ وہ نوجوان جو اپنی روایات اور اسلامی عقائد و نظریات سے متعلق علم نہیں رکھتے انکے مصنوعی منطق کے زیر اثر انکی بات پر یقین کرلیتا ہے۔

میری لبرل دانشوروں، سیکنڈ ہینڈ انگریزوں اور سرخ فلاسفروں سے مودبانہ گزارش ہے کہ حضور آپ کے دل میں درد انسانیت اور مخلوق خدا سے ہمدردی کا جذبہ سر آنکھوں پر مگر اس احسن عمل کے لیے سال کے گیارہ مہینے اور بھی موجود ہیں مگر تب مجھے کبی آپ کی جانب سے ایسی کوئی دلیل یا حجت کیوں نظر نہیں آتی کہ اپنے بنک بیلنس کو سود کے ذریعے بڑهانے کی بجائے اپنا روپیہ پیسہ اور دولت غریبوں میں بانٹ دو۔ آپ نے یہ کیوں نہیں کہا کہ کسی نیشنل یا انٹرنیشنل تفریحی مقام یا Hill station پر پرآسائش چھٹیاں گزارنے سے بہتر ہے کہ اس رقم سے ان افراد کی مالی امداد کرو جن کو دو وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ۔ آپ عیش و عشرت کی بجائے قناعت پسندی اختیار کرنے اور دولت کی تجوری پر سانپ بن کر بیٹھنے کی بجائے حاجتمندوں کی حاجات پوری کرنے کی تبلیغ کیوں نہیں کرتے؟ آپ لوگ یہ بھاشن اس وقت کیوں نہیں دیتے جب فیشن شوز اور ناچ گانوں پر کروڑوں اربوں کی رقم بے دریغ بہا دی جاتی ہے۔ تو جان لیجئے یہ لوگ سوائے ہماری اسلامی اقدار کی مخالفت کے کسی اور عمل میں ایسے مصنوعی اور ناپائدار منطقی دلائل سے بات کرتے نظر نہیں آئیں گے۔ اور ان کی جبلت میں منافقت کا مادہ اس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے کہ آپ کو ان انسان دوستی کے مصنوعی ٹهیکے داروں کے اپنے تمام تر افعال اور اقوال میں ° 180 ڈگری کا تضاد نظر آئے گا . یہ لوگ تو کسی ٹهیلے والے سے سبزی تک خریدنا پسند نہیں کرتے کہ اس میں ہائی جینک پرابلم ہوگی مگر سوشل میڈیا پر انکی حرکات دیکھ کر ایک لمحے کیلیے یوں ہی گماں ہوتا ہے کہ انسانیت کی مسیحائی میں انکا کوئی ثانی ہی نہیں. برانڈڈ سوٹ بوٹ پہن کر فائیو سٹار ہوٹل میں کھانا کھاتے وقت ان کو کیوں سوچ نہیں آتی کہ کسی ڈهابے سے کھاتے ہیں جس سے کسی غریب کا چولہا جلے گا.

اب رہی بات قربانی کی تو قربانی نہ کرنا اور اسکے بدلے امداد کر دینا بلکل ایسے ہی دکھائی دیتا ہے کہ اگر روزہ رکها ہے ہو نمازیں معاف ہیں. یعنی یہ ایک غیر فطری معائنہ ہے جس کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا ۔ لہذا قربانی کرنے کی بجائے انسانی خدمت کی ترغیب ایک سراسر غلط سوچ اور من گھڑت تاویل ہے. ہم لوگوں کی چکنی چپٹی باتوں میں آکر کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطئہ حیات ہے اور اس دین کامل کے ہر عمل میں انسانیت کی فلاح اور ہمدردی شامل ہے. آپ کو غور کرنے پر معلوم ہوگا کہ قربانی کے عمل میں بھی انسانیت کی فلاح اور ہمدردی کا عنصر موجود ہے شرط یہ ہے کہ اس عمل کو اسلام کے اصولوں کے مطابق سر انجام دیا جائے. اور ایک مسلمان کی حیثیت جب ہم دین اسلام کو اس کے تمام تر احکامات کے ساتھ قبول کر چکے ہیں تو مزید تحقیقات کرنا یا احکامات باری تعالی پر اپنے ذاتی افکار کو ترجیح دینا یقینی طور پر ہمیں گمراہی کی طرف لے کر جاتا ہے اور ہمارا یوں ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر احکامات رب ذوالجلال پر قیاس گناہ کے زمرے میں آتا ہے. لہذا ہمیں اس عمل سے خود بھی بچنا ہے اور دوسروں کو بھی بچانا ہے۔

اگر معاشی پسماندگی کو دور کرنے اور حاجتمندوں کی حاجت روائی کرنے کی بات کریں تو اسلام اس عمل میں بھی سب خیالات اور نظریات پر بھاری نظر آئے گا. انفرادی عمل سے لیکر اجتماعیت تک ہر سطح پر اسکی عملی مثالیں موجود ہیں. مثال کے طور پر قربانی کا عمل معاشی طور پر بھی ایک بہترین اور احسن عمل ہے قربانی کے عمل کی بدولت سرمایہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرتا ہے جس کی بدولت ناصرف لوگوں کی انفرادی معاشی حالت میں بہتری آتی ہے بلکہ دولت کی غیر منصانہ تقسیم میں بھی کمی آتی ہے۔ قربانی کے دنوں میں غذائی قلت کم ہو جاتی ہے اور ایسے بہت سے خاندانوں کو بھی بہتر کھانا میسر آتا ہے جو سال بھر میں شاید ہی کسی روز پیٹ بھر کر کھاتے ہوں گے۔ اسلام نےمعاشرے میں معاشی توازن قائم کرنے کے جو اصول ہمارے سامنے رکھے ہیں ہم ان پر عمل پیرا ہوکر آسانی سے اپنے معاشرے میں معاشی استحکام لا سکتے ہیں اور غربت سے مکمل طور پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کر سکتے ہیں.
ان ساری باتوں کے باوجود بھی اگر آپ کا کاں (کوا) چٹا ہی ہے اور آپ کی سوچ کا پہیہ اسی بات پر جام ہے کہ انسانیت کی خدمت کا صلہ زیادہ ہے تو ایسا کریں قربانی تھوڑی کم رقم کی کر لیں اور باقی رقم بچا کر دیگر فلاح انسابیت کے کاموں پر خرچ کرکے اپنے من کو شانتی بخشیں.

Leave a reply