نیب قانون میں اپوزیشن کی جانب سے ترامیم کا مسودہ، قریشی نے کھری کھری سنا دیں، کہا تحریک انصاف کیلئے یہ ممکن نہیں
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے نیب قوانین میں تجویز کی گئی ترامیم تحریک انصاف کے منشور کے خلاف ہیں‘
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ عمران خان نے واضح کیا ہے کہ بدعنوانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا‘ سیاست میں دروازے بند نہیں ہوتے اپوزیشن تنگ نظری کا مظاہرہ نہ کرے، نیب قانون میں دس سال تک ترامیم پر اتفاق نہ ہوسکا اب اپوزیشن چاہتی ہے کہ 10 گھنٹے میں ترامیم ہوں،اپوزیشن نیب قوانین میں ترامیم ایف اے ٹی ایف اور کرپشن کی نظر سے دیکھے،اپوزیشن سے اپیل ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کے قانون سازی میں کردار اداکرے،نیب پر اپوزیشن کی ترامیم اگر مان لی جائیں تو پاکستان کو فیٹف سے سہولت نہیں مل پائے گی،اپوزیشن عمران خان یا حکومت نہیں پاکستان کے مفاد میں لچک کا مظاہرہ کرے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمو دقریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کچھ عرصہ سے فیٹف کی گرے لسٹ میں آگیا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت سے پہلے ملک فیٹف کی گرے لسٹ میں آگیا۔ گزشتہ حکومتوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے ملک گرے لسٹ میں گیا۔ بھارت پاکستان کو بلیک لسٹ کروانے کیلئے سازش کررہا ہے تاکہ پاکستان کی معیشت تباہ ہوجائے۔ پاکستان کی برآمدات ختم ہوجائیں ‘ پاکستان پر سخت ترین پابندیاں عائد کی جائیں۔ پاکستان کے سفارتکاری نے اپنے ووٹ اور اصلاحات کے حوالے ے اقدامات کئے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دوست ممالک پاکستان کے ساتھ ہیں۔ پیرس میں ہونے والے آخری اجلاس میں پاکستان کی کارکردگی کو سراہا گیا ہے۔ فیٹف سفارشات کے حوالے سے وزارت خارجہ اور حماد اظہر کی کوششوں کو سراہتا ہوں۔ فیٹف سفارشات کے حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے گیارہ بل پیش کئے گئے ہیں۔ ہم نے اپوزیشن سے کہا کہ مل بیٹھ کر قوانین کی نشاندہی کریں۔ اس ضرورت کو ہم نے محسوس کیا اور اپوزیشن سے بات چیت شروع کی۔ انہوں نے خندہ پیشانی سے کہا کہ اس پر مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بل دونوں ایوانوں سے پاس ہونا ہے۔ ایک بل قومی اسمبلی پاس کر چکی ہے۔ سینٹ سے منظور ہونا ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ میں سپیکر اور چیئرمین سینٹ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے 25 رکنی کمیٹی تشکیل دی۔ اس میں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان شامل ہیں۔ آگے بڑھنے کے لئے مختلف نشستیں ہوئیں۔ میں نے بارہا نظرثانی کی درخواست کی۔ اپوزیشن نے اس پر بات کرنے کی حامی بھری ساتھ کہا کہ نیب قوانین میں ترمیم پر بھی بات کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے انہیں کہا کہ آپ کی بات رد نہیں کرتے۔ تھوڑی تمیز کریں۔ ایف اے ٹی ایف کے قانون سازی کا وقت مقرر ہے۔ پاکستان کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس قانون کو دو دن ملتوی نہ کرنے پر اپوزیشن نے اتفاق کیا۔ اپوزیشن کا پیکج ڈیل پر اصرار پر حیرت ہوتی ہے۔ ہم بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ نیب بل گزشتہ دس سال سے یہاں زیر بحث رہا۔ ان میں پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار تھے۔ اس پر کام ہوا۔ زاہد حامد کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی۔ اس پر حتمی فیصلہ نہ ہو سکا اور ترمیم نہ ہو سکی۔
شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ یہ خاصا پیچیدہ اور غور طلب قانون ہے۔ اس پر کتنی عرق ریزی ہوئی یہ ان کے سامنے ہے‘ اس کے لئے وقت درکار ہے۔ دو قانون انسداد دہشتگردی ایک میوچل لیگل اسسٹنس سے متعلق ہے۔ ایک فیٹف سے متعلق ہے۔ ہم نے اپوزیشن کو آرڈیننس کے حوالے سے آگاہ کیا۔ اپوزیشن کا موقف تھا کہ اس پر پیش رفت ممکن نہیں ہے۔ میری درخواست پر شاہد خاقان عباسی‘ خواجہ آصف‘ فاروق نائیک‘ سید نوید قمر‘ شیری رحمان‘ رانا ثناءاللہ کی موجودگی میں ان سے کہا کہ اگر بل پر اعتراض ہے تو آپ تجاویز دیں۔ انہوں نے ایک مسودہ دیا ہم نے اس کو دیکھا اور کہا کہ اس کا شق وار جائزہ لینے کی نیت کرلیتے ہیں۔ اس پر گفتگو کا آغاز کیا۔ ہم نے ایک ایک نکتہ سمجھا۔ اس مسودہ میں نیب کے قانون میں 35 ترامیم کیں۔ ہم نے اس کا جائزہ لیا۔ قانونی ٹیم نے یہ وزیراعظم کی خدمت میں پیش کیا۔ اس پر حکومت کا موقف میں نے اپوزیشن کے سامنے رکھا۔ ہم نے کہا کہ یہ ترمیم تحریک انصاف کے لئے ممکن نہیں۔ انسداد بدعنوانی ہماری پارٹی کا ایجنڈا ہے۔ ان ترامیم سے احتساب بے معنی ہو جائے گا۔ ہم انتقامی کارروائیوں کے حق میں نہیں۔ نیب قانون میں پہلی ترمیم یہ تجویز کی گئی کہ اس قانون کا اطلاق 16 نومبر 1999ءسے ہو۔ اس سے بہت سے کرپشن کے کیسز صرف نظر ہو جائیں گے،اس کے لئے ہم تیار نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ چیئرمین نیب کی مدت میں کمی کی ترمیم شامل ہے۔ موجودہ چیئرمین نیب کی تقرری میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں تھا،یہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے دور میں تعینات ہوئے۔
نیب قانون میں اپوزیشن کی جانب سے ترامیم کا مسودہ، قریشی نے کھری کھری سنا دیں، کہا تحریک انصاف کیلئے یہ ممکن نہیں
۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اپوزیشن کو اس پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ ہو سکتا ہے یہ پاکستان کے مفاد میں نہ ہو۔ اگر کوئی نیب کا سزا یافتہ ہے تو وہ رکن اسمبلی بن سکتا ہے یہ عوام کی توقعات کے برخلاف ہے۔ اپوزیشن اس پر نظرثانی کرے۔ قانون کے تحت اگر کوئی رکن سزایافتہ ہے اور وہ دس سال کے لئے نااہل ہوگا یہ اس میں ترمیم چاہتے ہیں کہ پانچ سال سزا رکھی جائے۔ یہ رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ چیئرمین نیب کی مدت چار سال سے کم کرکے تین سال کرنے پر اجتماعی اتفاق تھا۔ اس پر یہ بحث چل پڑی کہ چیئرمین نیب کو توسیع دی جارہی ہے۔ ایسی کوئی بات زیر بحث آئی ہی نہیں۔ پانچ سال سے پرانے کیس نیب نہیں لے سکتی ہے۔ یہ ترمیم حکومت کی نظر میں مناسب نہیں ہے۔ ان کی ترامیم میں چھ جرائم کو حذف کرنے کی بات شامل ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ایسا ہو۔ ڈبل شاہ جیسے لوگ نیب کی پکڑ سے نکل جائیں گے۔ یہ ترمیم بھی ہے کہ جب تک سزا نہ ہو گرفتار نہ کیا جائے۔ بہت سے لوگوں نے ملک چھوڑ دیا۔ یہ ترمیم بھی تعجب آمیز ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اربوں روپے کے قرض بڑے لوگ لیتے ہیں۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ ان کو نیب کی زد میں نہیں ہونا چاہیے۔جو مسائل قومی مفاد اور جو مفاد ذاتی ہیں ان کو الگ رکھنا چاہیے۔ ان کو ہم پلہ نہیں کر سکتے۔ قومی مفاد کو ترجیح دینی چاہیے۔ پاکستان کا یہ ایوان فیٹف کے متعلقہ قانون سازی فوری کرے۔ جس قانون پر دس سال متفق نہ ہوئے وہ دس گھنٹوں میں ممکن نہیں۔ اس پر پاکستان کے لئے گنجائش پیدا کریں یہ آپ کا بھی وطن ہے۔ شفافیت‘ احتساب اور عالمی تعاون فیٹف کی بنیاد ہے۔ نیب کے قانون میں 35 ترامیم پیش کی گئی ہیں اگر ہم یہ کرلیتے ہیں تو اس ایوان کا مقصد فوت ہو جائے گا۔ ہم اس طرح فیٹف سے مفاد نہیں لے سکیں گے۔ ہمارا مقصد فوت ہو جائے گا۔ پاکستان نے فیٹف قانون پر دستخط کر رکھے ہیں نیب ترامیم سے پاکستان کے مقاصدکو خطرہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی سیاست میں نشیب و فراز بھی آئے ایک چیز جس پر خان مسلسل رہا وہ پاکستان سے کرپشن کے ناسور کا خاتمہ ہے۔ یہ اس کی سوچ کا محور ہے‘ مجھے اس قوم نے مقبولیت دی وزیراعظم بنایا۔ میں سیاست میں اقتدار کے لئے نہیں آیا۔ کرپشن پر میں سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ یہاں سنجیدہ دوست بیٹھے ہیں۔ ہماری بات چیت اچھے ماحول میں ہوئی۔ فہم و فراست دیکھنے کو ملی۔