راہِ علم کے مسافر،سائباں اور دودھ کا پیالہ تحریر:جویریہ بتول

0
43

راہِ علم کے مسافر،سائباں اور دودھ کا پیالہ…!!!
[تحریر:جویریہ بتول]۔
قبیلہ دوس میں پیدا ہونے والے ابو ہریرہ بکریاں چراتے اور تنگی میں گزر اوقات کرتے تھے،بلیوں سے محبّت کی وجہ ابو ہریرہ کہلائے،
قبیلہ دوس کے شاعر طفیل دوسی اسلام کے ظہور کے بعد مکہ پہنچے اور رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی باتیں سن کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اسلام قبول کر لیا۔
ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ نے بھی جب یہ بات سنی تو وہ بھی بے تاب ہو گئے اور چاہا کہ کسی طرح رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچیں…
مدینہ پہنچ کر 7ہجری میں تیس سال کی عمر میں اسلام قبول کر لیا اور صفہ کے تاریخ ساز اور عہد ساز چبوترے کے مکین بن گئے…کہ جن کے کردار پر تاریخ نازاں ہے اور پھر کبھی اس راہ سے جدا نہ ہوئے۔
اصحابِ صفہ وہ لوگ تھے جو مسلمانوں کے مہمان تھے،
ان کا گھر تھا نہ اسباب…
مال و دولت تھی نہ دوست آشنا…
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ کے پاس جو صدقہ کا مال آتا آپ وہ انہیں بھیج دیتے،
کوئی تحفہ آتا تو خود بھی کھاتے،انہیں بھی کھلاتے…
ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ نے سب سے زیادہ احادیث روایت کرنے کا شرف پایا جن کی تعداد 5375 ہے ،آپ نے جب رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے کم حافظے کی شکایت کی تو رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا میں جب بھ کوئی بات کروں تو تم اپنی چادر پھیلا دینا اور جب بات مکمل ہو جائے تو چادر اپنے گرد لپیٹ لینا…ابو ہریرہ کے بقول پھر کوئی حدیث وہ نہ بھولے…!!!
ان کے پاس کمائی کا کوئی زریعہ نہیں تھا شدید فقر وفاقہ میں علم حاصل کیا…
صحیح بخاری میں ہے کہ:
ابو ہریرہ کہا کرتے تھے کہ قسم پروردگار کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں،
میں بھوک کے مارے اپنا پیٹ زمین سے لگا دیتا تھا۔
ایک دن ایسی ہی جگہ پر جہاں سے لوگ گزرتے ہیں لیٹا تھا کہ ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ گزرے میں نے ان سے قرآن کی ایک آیت پوچھی،میری غرض یہ تھی کہ وہ مجھے کھانا کھلا دیں لیکن وہ میری بات سمجھ نہ سکے،
پھر عمر رضی اللہ عنہ گزرے وہ بھی بات نہ سمجھ سکے…
پھر رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا گزر ہوا تو آپ میرا مدعا سمجھ گئے…مسکرا دیئےاور مجھے ساتھ چلنے کو کہا،
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا اباہر…!!!
میں نے کہا حاضر ہوں یا رسول اللہ!
میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پیچھے چلنے لگا…
گھر پہنچ کر آپ اندر داخل ہوئے اور مجھے بھی داخلے کی اجازت دی…
گھر والوں سے پوچھا گیا کہ کوئی چیز موجود ہے؟
بتایا گیا کہ دودھ کا ایک پیالہ ہےجو آپ کے لیئے ہدیہ بھیجا گیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابا ہر…!!!
جا سائبان(صفہ)والوں کو بلا لا…
میں نے دل میں سوچا کہ ایک پیالہ دودھ اتنے لوگوں کو کیسے کفایت کرے گا؟
اصحابِ صفہ کو بلایا گیا وہ آن کر بیٹھ گئے…
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ کو حکم دیا کہ سب کو دودھ پلاتے جاؤ…
آپ پیالہ ایک ایک صحابی کو دیتے جاتے اور وہ سیر ہو کر پیتا جاتا اور پھر پیالہ واپس ابو ہریرہ کو پکڑا دیتا…
جب سب لوگ جی بھر کر دودھ پی چکے تو رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے پیالہ ہاتھ میں لے کر ابو ہریرہ کو دیکھا اور مسکرائے…
اور فرمایا:
اقعد فاشرب…
ابو ہریرہ بیٹھ جا اور دودھ پی لے…
میں بیٹھ گیا اور دودھ پینے لگا…
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بار بار یہی فرماتے جاتے اور پی…
میں پیتا رہا آپ پھر فرماتے:
ابو ہریرہ اور پی لے…
یہاں تک کہ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قسم اس پروردگار کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اب میرے پیٹ میں جگہ نہیں رہی کہ اس دودھ کو اُتاروں…
تب رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اچھا ابو ہریرہ اب پیالہ مجھے دے دے…
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے شکر ادا کیا اور بسم اللہ پڑھ کر وہ بچا ہوا دودھ پی لیا…(صلی اللہ علیہ وسلم)۔
وہ جو نبیوں میں رحمت لقب پانے والے…
وہ جو اپنے پرائے کا غم کھانے والے…
وہ جو مصیبت میں غیروں کے کام آنے والے…
وہ جو ضعیفوں کے مددگار،یتیموں کے والی تھے…!!!
زید بن ثابت کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ابو ہریرہ بھی ہمارے ساتھ تھے…سب نے اپنی دعا مانگی،
ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ نے کہا:
اے اللہ مجھے وہ بھی دے جو میرے ساتھیوں نے مانگا اور مجھے ایسا علم دے جو بھلایا نہ جا سکے…
تو رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے کہا آمین۔
آپ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے اور احادیث جمع کرتے رہتے تھے۔
آپ کے اس علم کے آگے ہر فن کی روشنی ماند ہے…
ابو بکر صدیق اور عمر رضی اللّٰہ عنھما کے دور میں اللّٰہ تعالٰی نے بہت نوازا مالی استحکام نصیب ہوا…
لیکن یہ سچ ہے کہ بلندیوں پر جگمگانے کے لیئے خونِ جگر جلانا پڑتا ہے…
راہ کی مشکلات اور کانٹے چننا پڑتے ہیں…
سحر ہمیشہ گھپ اندھیرے سے پھوٹتی ہے…
اور سچائی اور سیدھی راہیں قربانی مانگتی ہیں…
بڑے منصب پر فائز ہونے کے لیئے شارٹ کٹ نہیں بلکہ جہدِ مسلسل اور تلخیوں کا سامنا لازم ہوتا ہے…
آپ کی والدہ اسلام کی سخت دشمن تھیں آپ نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے روتے ہوئے دعا کی درخواست کی
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ماں قبولِ اسلام کے لیئے بصد رضا تیار ہو گئیں…!!!
(رضی اللہ عنہ)۔
اللّٰہ ہمیں بھی حقیقی علم کی روشنی سے سینے منور کرنے اور اس روشنی کو ہر طرف پھیلانے اور ظلمتوں کو مٹانے کی توفیق نصیب فرمائے تاکہ انسانیت کا درد اور دفاع و احترام ہمارے معاشرے کی پہچان بن جائے،ہمدردی و غمگساری کے جذبات ہمارا شعار ہوں آمین ثم آمین۔
=============================
(جویریات ادبیات)۔
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤

Leave a reply