
راستے وفا کے…!!! قسط نمبر:1
(بقلم :جویریہ بتول).
وہ ایک خزرجی نوجوان تھا…تجارت پیشہ،خوش حال سا شخص…
ایک صبح نیند سے بیدار ہو کر اپنے گھر کی چھت پر نصب بت کی طرف گیا…اُسے بہترین خوشبو لگائی،ریشمی لباس پہنایا آور اپنے کاروبار کی طرف نکل گیا…
راستے میں اُسے مدینہ کی گلیوں میں پیروانِ محمدﷺ کا ہجوم نظر آیا…استفسار کیا تو پتہ چلا کہ یہ فاتحینِ غزوۂ بدر ہیں جو قریشی مکہ سے پہلے معرکہ حق و باطل کے بعد سرشار لوٹ رہے ہیں…
اُس نے اپنے ساتھی عبداللہ بن رواحہ کے بارے سوال کیا ؟
عبداللہ اور ابو درداء چونکہ گہرے دوست تھے…
لیکن اب عبداللہ صفِ اسلام میں کھڑا ہو چکا تھا اور ابو درداء ابھی آبائی دین پر کاربند تھا…
پتہ چلا کہ عبداللہ تو اس کارواں میں شریک ہے جس کا منظر اس نے آنکھوں سے دیکھا تھا…
عبداللہ کبھی کبھی اپنے دوست کے گھر کا چکر لگاتا اور اُسے شرک سے اجتناب کرنے اور نورِ اسلام کی حقانیت کا درس دیتا رہتا تھا…ابو درداء اپنے دوست کی باتیں محبّت سے سنا کرتا مگر…
ردعمل سے ابھی تک نالاں تھا…!
وقت گزر رہا تھا…ابو درداء ایک دن اپنے تجارتی مرکز پہنچ کر خرید و فروخت میں مشغول ہو گیا…
نجانے عبداللہ کے دل میں کیا خیال آیا سوچا کہ چلو دوست کے گھر کا چکر لگا لیا جائے…
دروازہ پر پہنچ کر اجازت چاہی…تو دوست کی بیوی نے جو عبداللہ اور ابو درداء کی دوستی سے اچھی طرح واقف تھی اجازت دے دی…
ابنِ رواحہ تیز قدموں سے اخذ بت خانے کی طرف بڑھ گیا جہاں دوست نے تراشیدہ بت سجا رکھا تھا…
عبداللہ نے اُس بت کو پے در پے ضربیں لگا کر توڑ ڈالا اور گھر سے نکل گئے…
جب اس منظر کا مشاہدہ ام درداء نے کیا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے…
چلانے کے سے انداز میں بولی ابن رواحہ نے تو ہمیں ہلاک کر دیا…ہمارے معبود کا یہ حال کر کے اُس نے حقِ دوستی ادا کیا ہے؟
حیران و پریشان بیٹھ گئی کہ ابو درداء گھر تشریف لے آئے…
سارا ماجرا بیان کیا اور بتایا کہ تمہارے دوست عبداللہ نے یہ سب کیا اور نکل گیا ہے…!
ایک لمحے کے لیے ابو درداء کا ذہن گھوم کر رہ گیا…انتقامی کاروائی کے لیے پَر تولنے لگے…لیکن دوسرے ہی لمحے ذرا سوچا تو دل میں کہنے لگے اگر یہ معبود کچھ اختیار یا طاقت رکھتا ہوتا تو ضرور اپنا دفاع کرتا…
جب اس پر ضربیں لگیں تو یہ ابنِ رواحہ پر جوابی وار کرتا لیکن ایسا کُچھ بھی نہیں ہوا…
ابو درداء نے ذرا گہرائی سے سوچا…
کیوں نہ سوچتا…؟
وہ ایک بھلا چنگا سمجھدار انسان تھا…!!!
(جاری ہے).