ریاست مدینہ کا دعویدار کرسی کی محبت میں جھک گیا،تحریر، نوید بلوچ

0
31

کرسی کی محبت بھی انسان کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے ۔ اقتدار ہاتھ میں آتا ہے تو انسان خود کو زمینی خدا سمجھنے لگتا ہے۔ اسے مضبوط کرنے کا ہر حربہ اپنایا جا تا ہے ۔ وہ عام لوگوں کو کیڑے مکوڑے سمجھنا شروع ہو جاتا ہے ۔ اپنا ہر حکم ان پہ صادر کرتا ہے اور جو حکم عدولی کرتا ہے ، جو آگے سر نہیں جھکاتا اسے سزا دی جاتی ہے ۔اس کےلیےزمین تنگ کر دی جاتی ہے۔ لیکن اقتدار کی کرسی آج تک کسی کی سگی نہیں رہی ۔ آج جو پنچھی ایک منڈیر پہ بیٹھے ہیں کل کو کہیں اور بیٹھیں ہونگے۔ آج یہ ایک کے پاس ہے تو کل کسی اور کے پاس ہو گی ۔ آج جو حکومتی بینچ بجا رہے ہیں کل کو حذب اختلاف کی کرسیوں پر سوگوار بیٹھے ہونگے ۔ اور جب کرسی ہاتھ سے جاتی دکھائی دے گی تو ہاتھ پاوں ماریں گے لیکن حاصل کچھ نہیں ہو گا۔

یہی حال عمران خان کا تھا۔ حصول اقتدار سے پہلے ان کے تیور الگ تھے ۔ ان کے نزدیک جمہوریت میں طاقت کا اصل سرچشمہ عوام تھے ۔ ان کے نزدیک پاکستان کے سارے مسائل کا حل تحریک انصاف کی حکومت آنے میں نہاں تھا۔ اور پھر ان کی حکومت بھی آ گئی ۔ جس طرح حکومت آئی اور جیسے جہاز بھر بھر کر بنی گالا کو سیاسی رن وے بنایا گیا اس فسانے کو کسی اور دن چھیڑیں گے ۔ حکومت ہاتھ میں آئی تو پتہ چلا کہ جس ملک کو ٹھیک کرنے کا نوے دن کاخواب دکھایا گیا اس کی تعبیر ہی ممکن نہیں ۔ پھر ہونا کیا تھا ، تجربات پر تجربات کیے گئے ۔ پہلے اسد عمر کو لایا گیا جب ان سے کچھ نہ بنا تو تین اور تجربے کیے گئے لیکن معیشت کی صورتحال پھر بھی جوں کی تو ں ہی رہی ۔ جس آئی ایم ایف کے پاس جانا ملک کی عزت میں کمی تصور کیا جاتا تھا، اس کے پاس سب سے زیادہ بار جایا گیا ۔ ریکارڈ قرضے لیے گئے لیکن معیشت کی حالت جوں کی توں ہی رہی ۔اس پہ ستم یہ کہ ہمیں آئی ایم ایف سے وعدہ شکن حکمران کا ایک لقب بھی مل گیا ۔ اس کے بعد وقت بدلا اور حالات نے انگڑائی لی ۔

پی ڈی ایم نام کا ایک سیاسی اکٹھ ہوا جس کا مقصد ملک کو عمران حکومت سے چھٹکارا دینا تھا۔ لانگ مارچ ہوئے ، آزادی مارچ ہوئے ، مہنگائی مارچ ہوئے اور سال کی مشقت کے بعد پی ڈی ایم اپنے عزائم میں کامیاب ہوئی۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی۔ لیکن عمران خان نے اقتدار کو طول دینے کا فیصلہ کر لیا تھا اور وہی ہوا۔ اسد قیصر اور قاسم سوری کی شکل میں دو پیادے میدان میں اتارے گئے اور ان سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی پوری کوشش کی گئی لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ کوئی چال کامیاب نہ ہوئی ۔ الٹا ان پہ وعدہ شکن کے بعد آئین شکن کا بھی ٹھپہ لگ گیا ۔ جو تاریخ کے اوراق کی زینت بنے گا اور ہمیشہ تحریک انصاف کے تاریک ماضی میں یاد کیا جائے گا۔

یہ کرسی ہی کی لالچ ہے جو انسان کو آئین تک سے کھلواڑ کرنے پہ مجبور کر دیتی ہے ۔ طاقت کے نشے میں چور انسان یہ بھول جاتا ہے کہ جو وہ قدم اٹھانے جا رہا ہے اس کا مستقبل میں کیا انجام ہو سکتا ہے ۔ اس سے ملک کے عوام کس کرب سے گزریں گے ۔ اور پھر وہی ہوا۔ اس سارے سیاسی سرکس کی وجہ سے نقصان صرف عام عوام کو اٹھانا پڑا۔ معیشت کا حال بد سے بدترین ہوتا چلا گیا۔ ڈالر کا ریٹ آسمانوں پر پہنچ گیا ۔ لوگ گھریلو استعمال کی چیزیں تک خریدنے سے قاصر ہو گئے ۔ ملک میں ڈیفالٹ کا خطرہ اتنا بڑھ گیا کہ معیشت پر نظر رکھنے والے اداروں نے ہمیں عنقریب ڈیفالٹ ہونے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر لا کر کھڑا کر دیا ۔

اس کے باوجود بھی ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔ عمران خان اقتدار حاصل کرنے کےلیے ایک بار پھر وہی کام کر رہے ہیں جو انھوں نے 2011 سے شروع کیا۔ یعنی ایک ایسی سیڑھی کی تلاش جو با آسانی اقتدار تک پہنچا دے۔ وہ ایک بار پھر سے اپنے سارے سیاسی اصولوں کو پیروں تلے روند رہے ہیں ۔ جس امریکی سازش کا اتنا واویلا مچایا گیا ، جس امریکی سازش کے بیانیے سے پنجاب کے ضمنی الیکشن میں حریفوں کو چاروں شانے چت کر دیا گیا۔ اب اسی امریکہ سے پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں ۔

ملک کے دو بڑے صوبوں میں اس وقت تحریک انصاف کی حکومت ہے اور ان دونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ امریکی سفیروں سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں ۔ پرویز الہیٰ امریکہ سے بہترین تعلقات رکھنے کا بیان بھی داغ دیتے ہیں ۔ ایک اور حیران کن بات یہ بھی ہے کہ امریکہ کے قونصل جنرل پرویز الہیٰ کے دربار پر ان کے وزیر اعلیٰ بننے کی مبارکباد دینے کےلیے حاضری دیتے ہیں ۔ اب آپ خود بتائیں کہ جو آپ کی حکومت کے دشمن ہوں وہ آپ کو منصب سنبھالنے کی مبارکباد کیوں دیں گے۔ کیا دال میں کچھ کالا ہے یا پوری دال ہی کالی ہے ؟

بات یہیں تک نہیں رہتی بلکہ اب تو یہ چہ مہ گوئیاں بھی ہونے لگ گئی ہیں کہ جب امریکی سفیر کی خیبر پختونخواہ انٹری ہوئی تو وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ نے وچولے کا کردار ادا کرتے ہوئے عمران خان اور امریکی سفیر کی ٹیلی فون پر بات کرائی۔اس سے بڑا انکشاف کل رات ہوا۔ کل مبینہ طور پر کچھ دستاویزات سامنے آئیں جن میں تحریک انصاف نے ایک کمپنی کو پیسے دیے اور ان کے ذمے یہ کام سونپا گیا کہ وہ امریکی صدر جوبائیڈن سے تحریک انصاف کے خراب تعلقات بہتر کرنے میں مدد کریں ۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ۔ اس سے پہلے بھی عمران خان اپنے ایک قریبی ساتھی کو امریکہ سے صلح صفائی کا کہہ چکے ہیں اور جب یہ بات سامنے آئی تو نہ تو اس کی تردید کی گئی اور نہ تصدیق۔ خاموشی کا مطلب مشرقی معاشرے میں عمومی طور پر ہاں سمجھا جاتا ہے ۔ اگر یہاں بھی اس کا مطلب ہاں ہے تو مبارک ہو آپ کو۔ ریاست مدینہ کا دعویدار ایک بار پھر کرسی کی محبت میں گھٹنے ٹیک چکا ہے ۔ ریاست مدینہ کا داعی ایک با ر پھر اپنے سارے اصولوں کی بھینٹ چڑھا چکا ہے ۔ اور نہ جانے کتنوں کی بھینٹ چڑھانی باقی ہے ۔:

Leave a reply