زمینی جنگ شروع ہونے سے پہلے، ایک جنگ اندر شروع ہو جاتی ہے۔دل اور دماغ کی جنگ۔ دلیل اور جذبات کی جنگ۔ قلم اور تلوار کی جنگ۔ اور جب بیرونی سرحدوں پر توپوں کا شور گونجتا ہے، تب یہ اندرونی جنگ انجام تک پہنچتی ہے۔ ایک طرف حب الوطنی کے جذبات کا طوفان ہوتا ہے، اور دوسری طرف روشن خیالی کے نام پر شکوک و شبہات کی طغیانی۔لیکن سوال یہ ہے کہ جب دشمن کی توپوں کا منہ ہماری دھرتی کی طرف ہوجائے ، جب وطن کی مٹی کی مہک بارود میں گم ہونے لگے، جب گھر سے دور، بیمار پڑی ماں کے دکھ، ہسپتال میں زندگی اور موت کی آخری جنگ لڑتی بیوی کو چھوڑ کر سپاہی سرحد پر کھڑا ہو۔ تو اُس وقت ریاستی بیانیے پر تنقید کر کے کیا ہم سچ بول رہے ہوتے ہیں، یا دشمن کے جھوٹ کا ترجمہ کر رہے ہوتے ہیں؟
یہ وقت نہیں کہ ہم اپنی فوج کی کارکردگی پر سوالات اٹھائیں، یہ وقت ہے کہ ہم اپنے مکار دشمن کی حقیقت کو پہچانیں اور اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجائے۔ گزشتہ رات ہونے والے حملوں کا مجھ سمیت 90 فی صد پاکستانیوں کو صبح جاگ کر پتہ چلا۔ اگر فوج نہ ہوتی تو ابھی تک ہمارا بھی شاید پتہ نہ ہوتا۔
بھارت نے اس بار بھی اپنے روایتی چالاک اور بزدل طریقوں کو دوبارہ آزمایاہے۔ اور اس بار وہ ہماری سول سوسائٹی پر حملہ آور ہوا۔ رات کی تاریکی ہمارے مقدس مقامات، مساجد اور مدارس کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا۔کم ظرف دشمن نے ہمارے شہریوں، عورتوں اور بچوں کو بھی نشانہ بنایا، اور ان معصوم جانوں کا خون ہماری سرزمین پر بہایا۔یاد رکھیں، ان حملوں کا مقصد سرحدی علاقوں کو متاثر کرنا نہیں تھا، بلکہ پوری قوم کی روح پر ضرب لگانا تھا۔ جب دشمن ہمارے ثقافتی ورثے، ہماری مساجد اور مدارس پر حملہ کرتا ہے، تو وہ صرف ہماری فوجی طاقت کو نہیں، ہماری روایات، ایمان اور تاریخ کو چیلنج کرتا ہے۔ہم اس وقت صرف بھارت سے نہیں لڑ رہے، اس لڑائی کے پیچھے وہی پرانا منصوبہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر بیرونی حملے کو صرف ’ردعمل‘ کے طور پر پیش کرنا۔ اس بار بھی وہی پرانا منظرنامہ ہے، اداکار بھی وہی ہیں پرانے ہیں،مگر سکرپٹ رائٹر زیادہ چالاک ہے۔ اب میز پر بھارت کے ساتھ اسرائیل بھی بیٹھا ہے، اور ان کے سامنے صرف ایک ہدف ہے،پاکستان کو غیر مستحکم کرنا۔
ایسے میں، اگر کوئی اندر سے اپنے ہی محافظ پر شک کرے، تو وہ شک نہیں، شراکت داری کہلائے گی۔ اس وقت میرا وہی بیانہ ہے، جو میری ریاست کا بیانیہ ہے۔
ریاست کی بقا کسی ایک ادارے کی نہیں، پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔ اختلاف کا وقت امن ہوتا ہے، جنگ میں صرف اتحاد ہوتا ہے۔ جیسے محاذ پر ایک سپاہی اپنی جان کی پروا کیے بغیر مورچے میں بیٹھا ہے، ویسے ہی ہمیں اپنی رائے کی آزادی کو تھوڑی دیر کے لیے ملک کے وقار کے تابع کرنا ہوگا۔ کیونکہ جب توپ کا منہ کھلتا ہے، تب بڑی سے بڑی دلیلوں کا منہ بند ہوجاتا ہے۔