رشتوں کی آس، زندگی میں مٹھاس – جویریہ بتول

0
65

انسان کی اس دنیا میں آمد ہی رشتوں کے توسط سے ہوتی ہے…انسان پیدا ہوتے ہی مختلف رشتوں کے حسین بندھن میں بندھا ہوتا ہے…ماں باپ،بہن بھائی،ددھیال،ننھیال پھر زندگی کے مدارج طے کرتے ہوئے سسرال،میکہ غرض یہ سارے رشتے زندگی کا حُسن ہیں…
ہمارے دین اسلام نے ان کی قدر،ہر حال میں جوڑنے اور حقوق کی ادائیگی کی بڑی تاکید کی ہے…
اللّٰہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں:
"اللّٰہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو…!!!”(النسآء:1).
ارحامٌ رَحِمٌ کی جمع ہے مراد رشتے داریاں ہیں…
رشتہ داروں سے حُسنِ سلوک یعنی اچھے اخلاق،مالی اعانت،ضروریات کا خیال،ہمدردی و خیر خواہی کو صلہ رحمی کہا گیا ہے…
اور پھر صلہ رحمی کی بھی وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیا کہ صلہ رحمی بدلے کا نام نہیں ہے بلکہ صلہ رحمی وہ ہے کہ جب تمہیں کاٹا جائے اور تم اُسے جوڑو…
سوشل دور میں جیتے ہوئے ہم جہاں دیگر برائیوں میں مبتلا ہو رہے ہیں وہی ایک بڑی خرابی رشتہ داری کی اہمیت کی کمی بھی دکھائی دیتی ہے…
آج ہم روابط،تعلقات اور معاملات میں مشاورت کے لیئے غیر رشتہ داروں کو اہمیت دیتے نظر آتے ہیں اور رشتہ داروں سے دوریاں اور حقوق سے غفلت ہمارا معاشرتی رویہ بنتا جا رہا ہے…
ہم دور کے امیر دوستوں سے تعلقات کے قلابے ملانا فخر سمجھتے ہیں جبکہ قریب کے غریب رشتہ داروں کو پوچھتے تک نہیں…
یہی ذہنی پستی کی عکاسی ہے…
اللّٰہ تعالٰی قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
"رشتے ناتے ان میں سے بعض بعض سے زیادہ نزدیک ہیں اللّٰہ کے حکم میں…”(الانفال 75).
رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا:
"قیامت سے پہلے رشتہ داری ٹوٹ سی جائے،جھوٹی گواہی عام اور سچی گواہی نایاب سی ہو جائے گی…”
(مسند احمد).
ہمارے رشتے دار ہر لحاظ ہماری توجہ اور ذمہ داری کے پہلے حقدار ہیں…یہاں عقائد و نظریات کا اختلاف بھی معنی نہیں رکھتا…اور اُن کی دنیاوی معاملات میں مدد اور خیال و عزت والا معاملہ ضرور کرنا چاہیئے…
حضرت اسماء رضی اللہ عنھا نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں آئی ہے میں اس کے ساتھ کچھ سلوک کر سکتی ہوں؟
آپﷺ نے فرمایا:
صلی امک…!!! ہاں تو اپنی ماں سے صلہ رحمی کر…(صحیح بخاری)…
جہاں ہمیں اسراف سے بچنے کا حکم ملا وہیں پہلے فرمایا:
‘اور رشتہ داروں کا،مسکینوں کا اور مسافروں کا حق اَدا کرتے رہوہ…(بنی اسرائیل:26).
رشتہ داری کا حق ہم یوں بھی اَدا کر سکتے ہیں کہ اپنے سے کم تر رشتہ داروں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کر دیں…روزگار کاروبار میں مدد کر دیں اور پھر احسان نہ رکھیں…ذہنی اذیت نہ پہنچائیں…
بڑی بڑی تقاریب منعقد کرتے وقت وہ دینی ہوں یا دنیاوی پہلے حقدار رشتہ دار ہی ہیں…
چاہے وہ ہم سے متفق ہوں یا نہیں لیکن بالاولٰی وہ مستحق ہیں…
رسول اللّٰہ ﷺ کو کھلے عام دعوت اور انذار و تبشیر کا حکم ملا تو اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا:
"اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرا دیں…”(الشعرآء:216).
یعنی رشتہ داروں کی آخرت کی فکر بھی ہماری پہلی ذمہ داری ہے تاکہ وہ اصلاح کر کے حُسنِ عمل اختیار کریں اور ہم سب جنتوں میں بھی قربتوں کے حقدار بنیں…
آج صورت حال یہ ہے کہ شادی بیاہ کا موقع آ جائے تو انوائیٹنگ لسٹ میں خاندان کے متعدد گھرانے بلیک لسٹ ہوتے ہیں…جبکہ دور کہیں گلی میں سے گزرتے ہوئے صرف سلام ہو جانے کو بھی اہمیت دی جاتی ہے…
ہم کوئی چیز خرید لیتے ہیں تو رشتہ داروں سے چھپاتے ہیں کہ وہ حسد کرتے ہیں…
جبکہ سوشل میڈیا پر اس کی تشہیری مہم چلاتے ہیں…؟
کئی ایسے واقعات ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں کہ لوگ اپنے رشتہ داروں کو برابری پر آتے دیکھنا پسند نہیں کرتے،انہیں سادہ مزاج اور کم تر سمجھتے ہیں…انہیں کچھ راز و امور نہیں بتاتے اور دور کہیں بہت متاثر کن شخصیت بنے ہوتے ہیں…
اپنوں کو دھوکہ دیتے ہیں…مالی حق تلفیاں کرتے ہیں اور باہر کی دنیا میں امین بنے ہوتے ہیں…
تو اصل میں یہی چیزیں معاشرتی بگاڑ کی وجہ بنتی رہتی ہیں…
اور ہم ایک دوسرے کی قدر و اہمیت اور حقوق و فرائض سمجھنے سے محروم رہ جاتے ہیں…!!!
خاندان میں کوئی اچھا کمانے یا پہننے لگ جائے تو غلط توجیہات جبکہ باقی لوگوں کے لیئے نرم گوشہ…
کوئی خوشی غمی کا مرحلہ آ گیا تو رشتہ داروں سے چھپاتے ہیں اور سکرین پر سات سمندر پار بھی ہمدرد نظر آ جاتے ہیں…
یہاں مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم دوستوں اور دوستی کو خیر باد کہہ دیں،ہر گز نہیں…!!!
لیکن ہر حق کی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے…
تبدیلی تبھی نہیں آتی جب ہم ایک دوسرے کو قربت،اپنائیت اور احساس دلائیں گے تو کوئی حسد بھی نہیں کرے گا…
وہ کامیابی پر خوش اور دکھ پر غم ناک ہو گا…آپ کے قریب رہنا اور بیٹھنا پسند کرے گا…
مسائل تب جنم لیتے ہیں جب ہم خود ساختہ وجوہات کے کانٹے دار درخت کو ہوا اور پانی کی فراہمی شروع کر دیتے ہیں تو پھر غلط فہمیوں کے سلسلے تھمتے نہیں…
بغض و حسد کے طوفان اُمڈتے چلے آتے ہیں اور پھر کسی کا دُکھ ہماری خوشی بننے لگتا ہے یہی انسانیت کی پستی کا عالم ہے…!!!
لیکن یہ ساری بات سمجھ وہی سکتا ہے جسے اللّٰہ تعالٰی کے احکامات کی سمجھ آئے گی…
پھر وہ اپنے پاس سے شمع جلانا شروع کرے گا…
وہ موٹیویشنل بن کر دھواں دار انداز میں سات سمندر پار روشنیاں پھیلانے میں جذباتی نہیں ہو گا…
بلکہ پہلے گھر،خاندان،ملک،اور پھر دنیا تک اپنا پیغام اور عمل پہنچائے گا…!!!
اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم مخلص ہو کر زندگی میں توازن کی اہمیت کو سمجھ لیں گے…انسانیت کے تقاضوں سے آگہی حاصل کریں گے…
اپنے گھر،آس پاس تقریب و مجلس میں ہر ایک کا حق اور دلجوئی کا راز سمجھ پائیں گے…
تب ہم ایک کامیاب اور اثر انگیز شخصیت کے طور پر نکھر سکتے ہیں…ورنہ خرابیاں یونہی پیدا نہیں ہوتیں…شکوے عبث نہیں جنم لیتے…اور دوریاں بے وجہ نہیں ہوا کرتیں…
بلکہ وہ اکثر اوقات چند الفاظ،ایک احساس،اپنے ازلی حق اور بے لوث محبّت کے متقاضی ہوتے ہیں…!!!
لا ریب رشتوں میں قربت اور مٹھاس اس سفرِ زندگی میں ایک آس ہے اور اِسی لیئے ہمیں اس خوب صورت سرکل میں جوڑا گیا ہے تاکہ احساس کی زندگی باقی رہے…
لیکن اگر یہاں ہی احساس دَم توڑ دے تو یہ زندگی پھیکی،ادھوری اور بوجھ و تنہائی کا شکار کرنے لگتی ہے اور یہ چیزیں صرف یکطرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں…!!!
ہمیشہ اپنی قسمت پر راضی رہتے ہوئے کسی رشتے دار سے موازنہ بھی نہ کریں،تبھی حسد اور انتقام جیسی بیماری سے بچا جا سکتا ہے…خود کو ملی نعمتوں کی قدر اور شکر اَدا کریں کیوں کہ آپ اُن کے مکلف اور جوابدہ ہیں…دوسروں کی نعمتوں یا غلطیوں کی باز پرس ہم سے نہیں ہونے والی،تو ہم کیوں خود کو فضول میں جلائیں؟
اور کیوں نہ ایک اچھے اور احساس رکھنے والے ذمہ دار رشتے کا کردار اَدا کریں…!!!
اللّٰہ تعالٰی ہمیں اپنے احکامات کو سمجھنے اور اُن پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ کل ہم اُس کے سامنے سرخرو ہو سکیں…آمین.

جویریہ بتول اردو نظم و نثر لکھنے میں یگانہ روزگار ہیں ۔ ان کی مزید تحاریر پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

Leave a reply