بڑھتی ہوئی مہنگائی اور عوام کی پریشانیاں
تحریر:ملک ظفراقبال
آج ہر خاص و عام کی زبان پر ایک ہی جملہ ہے کہ "مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آ چکا ہے”، جسے قابو کرنا اب ناممکن نظر آتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ وہ مافیاز ہیں جو ہر دور میں حکومتی اقدامات کو چیلنج کرتے آئے ہیں، اور نتیجتاً عوام کو لوٹنے کا یہ عمل تسلسل سے جاری ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان عناصر کو اکثر حکومتی سرپرستی بھی حاصل رہی ہے۔
مثال کے طور پر، ایک قصاب 800 روپے کی بجائے 1100 روپے میں گوشت فروخت کرتا ہے، جو سرکاری نرخ سے 300 روپے زیادہ ہے۔ سرکاری ادارے صرف 500 روپے کا چالان کرکے خانہ پری کر لیتے ہیں، اور قصاب محفوظ ہاتھوں سے اپنی مرضی سے کاروبار کرتا رہتا ہے۔ گویا جرمانہ ایک رسمی کارروائی بن کر رہ گیا ہے، جو ملی بھگت کا ایک خوبصورت مظہر ہے۔ عوام کو گویا اس بدعنوان نظام کو برداشت کرنے کا عادی بنایا جا رہا ہے۔
مہنگائی محض ایک لفظ نہیں بلکہ ایسا ناسور ہے جو غریب اور متوسط طبقے کی کمر توڑ رہا ہے۔ بجلی، گیس، پانی کے بل ہوں یا روزمرہ اشیاء کی قیمتیں، سب کچھ آسمان کو چھو رہا ہے۔ رہی سہی کسر ناجائز ٹیکسوں نے پوری کر دی ہے، جس سے عوام شدید اضطراب کا شکار ہیں۔
بلوں کا بوجھ اور ٹیکسوں کی بھرمار سے ہر پاکستانی شہری سر پکڑ کر بیٹھ گیا ہے۔ 200 سے 201 یونٹ بجلی استعمال کرنے پر اسپیشل اضافی چارجز، گرمیوں میں طویل لوڈشیڈنگ اور اوپر سے بجلی پر الگ سے ٹیکس، عوام کے لیے سوہان روح بن چکا ہے۔ گیس کے نرخوں میں ہوشربا اضافے نے سردیوں میں گزارا ناممکن کر دیا ہے۔
حکومت کی جانب سے لگائے گئے مختلف قسم کے ٹیکس، جن میں سے کئی غیر ضروری اور ناجائز محسوس ہوتے ہیں، عوام پر اضافی بوجھ کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ تنخواہ دار طبقہ ہو یا چھوٹے تاجر، ہر کوئی اپنی آمدنی کا بڑا حصہ ان بلوں اور ٹیکسوں کی ادائیگی میں جھونکنے پر مجبور ہے۔ اس پر فائلر اور نان فائلر کا مضحکہ خیز تماشا عوام کے ساتھ مزید ناانصافی ہے۔
مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔ قوت خرید اس حد تک کم ہو چکی ہے کہ دال، سبزی، آٹا، چینی، گھی جیسی بنیادی اشیاء بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ بچوں کی تعلیم، صحت اور روزمرہ ضروریات پوری کرنا ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔ والدین نہ بچوں کو اچھے اسکول میں پڑھا سکتے ہیں، نہ بیماری کی صورت میں مہنگا علاج کرا سکتے ہیں۔
روزگار کے مواقع پہلے ہی محدود ہیں، اور مہنگائی نے زندگی کو مزید اجیرن بنا دیا ہے۔ لوگ قرض لے کر گھر کا چولہا جلا رہے ہیں، اور مالی مشکلات دگنی ہو گئی ہیں۔ اس ساری صورتِ حال کے برعکس، سرکاری سطح پر پروٹوکول اور عیاشیاں ویسے ہی جاری و ساری ہیں، جو عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
مہنگائی کا براہ راست اثر ملکی معیشت پر پڑتا ہے۔ جب عوام کی قوتِ خرید ختم ہوتی ہے تو مارکیٹ میں کاروبار ٹھپ ہو جاتے ہیں۔ چھوٹے کاروباری دیوالیہ ہو رہے ہیں، اور بڑے سرمایہ کار بھی سرمایہ کاری سے گریزاں ہیں۔ بے روزگاری میں اضافہ ایک سنگین سماجی مسئلہ بن چکا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ کئی بڑی صنعتیں پاکستان سے بنگلہ دیش منتقل ہو رہی ہیں۔
یہ وقت کی پکار ہے کہ حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ بیانات سے کام نہیں چلے گا، اب عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ناجائز ٹیکسوں کا خاتمہ کیا جائے، بجلی و گیس کے بلوں میں ریلیف دیا جائے، اور ذخیرہ اندوزوں و منافع خوروں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے کارروائی کی جائے۔
حکومت کو ایسی پالیسیاں وضع کرنی ہوں گی جن سے عام آدمی کی قوت خرید بحال ہو، اور وہ مہنگائی کے اس بوجھ سے نجات پا سکے۔ زراعت اور صنعت کو فروغ دے کر روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا ناگزیر ہے۔ یہی عوامی ریلیف ملکی معیشت کے استحکام اور سماجی ہم آہنگی کی ضمانت ہو سکتی ہے۔
عوام مہنگائی کے عفریت سے نجات چاہتے ہیں۔ یہ حکومتِ وقت کی آئینی، اخلاقی اور انسانی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی چیخ و پکار سنے، اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔ بصورت دیگر یہ سنگین مسئلہ سیاسی و سماجی انتشار کو جنم دے سکتا ہے، جس کے نتائج کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے۔