دیگرشعبوں کی طرح پاکستانی یونیورسٹیزبھی کرونا کےخلاف مزاحمت کے میدان میں سرگرم

0
48

کورونا کی وبا کے خاتمے کےلیے پاکستانی یونیورسٹیوں کے کردار سے کون واقف نہیں ، ہاں اگرفواد چوہدری کی یہ عادت مبارک ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروں میں نقص تلاش کرتے رہتے ہیں ،لیکن میں چوہدری صاحب کے گوش گزارکردیتا ہوں کہ پاکستانی یونیورسٹیوں نے کرونا کے خلاف جنگ جیتنے کے لئے باہمی تعاون کی کوششیں بہت پہلے سے شروع کردی تھیں۔ یونیورسٹیوں کے کردارسے متعلق ترجمان کاشف ظہیرکمبوہ نے اس حوالے سے ساری حقیقت کوواضح کردیا ہے

15 مارچ 2020 کی رات10 بجے جناب ریحان یونس ایگزیکٹو ڈائریکٹر یونیورسٹی آف سیالکوٹ (یو ایس کے ٹی) نے ڈائریکٹر اورک ، یونیورسٹی آف سیالکوٹ کو فون کیا کہ وہ کورونا وائرس کی وبا کے متعلق کچھ اہم اقدامات کا ارادہ رکھتے ہیں اوراس اہم کام کے لیے دوسرے ماہرین تعلیم اور اسٹیک ہولڈرز کو بھی ساتھ ملایں ۔ اور اس کے بعد یونیورسٹیز میں موجود مختلف سائنسدانوں، ریسرچرز اور پروفیشنل پالیسی لابنگ کرنے والے افراد پر مشتعمل ایک مضبوط گروپ تشکیل پانا شروع ہوا۔

اگلے 02 گھنٹوں میں ، رات 12 بجے تک ، رفاہ انسٹیٹیوٹ اف پبلک پالیسی، رفاہ یونیورسٹی ، قائداعظم یونیورسٹی ، یونیورسٹی آف بلوچستان ، یونیورسٹی آف سیالکوٹ ، پنجاب یونیورسٹی ، پی یو ایم این ایچ اور دیگر اداروں کے 20 سے زائد سائنس دان مل کر تبادلہ خیال کر رہے تھے ، اور اس پر عملدرآمد کے لئے مختلف اسٹیک ہولڈرز سے رابطہ کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ اس کمیونٹی کے بہت سے اقدامات سامنے آئے جس سے COVID19 کا مقابلہ کرنے کے طریق کار پر ذہن سازی ہوئی۔ وہ خاموش فوجیوں کی طرح دن میں 18 گھنٹے کام کر رہے ہیں لیکن اب ان کی آواز بڑے پیمانے پر سنائی دیتی ہے۔

فواد چوہدری صاحب ( وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) نے گذشتہ روز ٹویٹ کیا کہ یونیورسٹیز کرونا کے خلاف آگے نہیں آرہیں۔ اس بات کا جواب دیتے ہوئے کنسورشیم کے فوکل پرسن اور رفاہ یونیورسٹی کے فکلیٹی ممبر کاشف ظہیر کمبوہ نے کنسورشیم کی خدمات سے آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بہت اہم کام کئیے ہیں۔

ہماری ٹیمز نے مارکیٹس کا دورہ کیا تو معلوم ہوا کہ مارکیٹ میں سینٹایزر کے حوالے سے دھوکہ دہی کی جا رہی تھی۔اینٹی وائرس سینی ٹائزر میں 70 فی صد ایتھانول ہونا چاہیے۔ لیبل پر 70 فیصد ایتھانول کے فعال اجزاء دکھائے جانے والے سینٹایزر بنانے اور فروخت کرنے میں مارکیٹ میں کوئی برانڈ نہیں تھا۔ سائنس دانوں نے اس مسئلے کی نشاندہی کی ، تحریری حکمت عملی کی تجویز پیش کی اور اس پیغام کو پھیلاتے ہوئے متعلقہ اداروں کو احساس دلایا کہ کم معیار اور حفظان صحت کے اصولوں کےخلاف بنانے گئے ان برانڈز کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے جائیں۔ جس کی وجہ سے اب کچھ برانڈز نے لیبل پر 70 فیصد فعال مواد لکھنا شروع کردیا ہے۔ لیکن ابھی بھی دھوکہ دہی جاری ہے۔

یونیورسٹیز کے رابطے میں سٹوڈنٹس کو عوام تک یہ پیغام پہنچانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ یہ شعور دیا گیا کہ ایتھنول یا آئی پی اے جیسے 70 فیصد فعال اجزا لیبل پر درج نہ ہونے والے سینیٹائزر نہیں خریدنا چاہئے۔ کیونکہ یہ ڈبلیو ایچ او اور ایف ڈی اے کے رہنما اصول ہیں۔

کرونا کے بارے میں درست معلومات کا فقدان تھا۔

سائنس دانوں نے اس امر کو سمجھا کہ کورونا کے بارے میں گردش کرنے والی زیادہ تر معلومات غلط ہیں۔ سائنس دانوں نے رضاکارانہ طور پر مستند معلومات کی تصدیق کی جو اب عوام کو بتائ جارہی ہیں۔ ہزاروں افراد نے اس قابل اعتماد ذریعہ سے آنے والی معلومات پر اعتماد کرنا اور ان کی تشہیر کرنا شروع کردیا۔ سائنسدانوں کی زیر نگرانی معلومات کو فیس بک پیج, ٹویٹر ، انسٹاگرام اور وٹس ایپ کےذریعے شیئر کیا جا رہا ہے۔ مزید براں اس کے علاوہ معلومات کو شیئر کرنے سے پہلے لوگ اب تصدیق کے لیے اس گروپ کو معلومات بھیجتے ہیں۔

لوگوں کو سائنس دانوں کے اس گروپ کے ذریعہ یا صرف مستند ذرائع سے مستند معلومات تک رسائی حاصل کرنا چاہئے۔

ڈاکٹر صاحبان کے لیے ایپ کی تیاری ایک بہت ہی ضروری عمل تھا۔

ہم نے جب مختلف شہروں میں موجود ڈاکٹروں سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ کورونا مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر ایک دوسرے کے ساتھ منسلک
نہیں ہیں اور وہ تجربات کا تبادلہ کرنے اور دستیاب مریضوں کی ہسٹری سے نتائج حاصل کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

یو نیورسٹی آف سیالکوٹ کے ڈاکٹر صبیح کی نگرانی میں ترقیاتی ٹیم کے ایک گروپ نے میڈیکل ڈاکٹروں کی نگرانی میں اینڈروئیڈ ایپ تیار کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اور اس پر کام شروع کیا گیا ہے اور 1-2 دن میں تمام ڈاکٹر ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیالات کرسکیں گے۔

پوری دنیا میں وینٹیلیٹر کی دستیابی سب سے بڑا مسئلہ ہے

پوری دنیا میں اموات کی ایک بڑی وجہ وینٹیلیٹروں کی کمی ہے۔ مقامی وینٹیلیٹروں کی تیاری کے لئے سائنسدانوں کی ایک ٹیم تیار کی گئی ہے ۔ سیالکوٹ میں جراحی کے آلات تیار کرنے والی ایک بڑی کمپنی نے سرمایہ کاری پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس وجہ سے قابل عمل ڈیزائن سامنے آئے ہیں۔ یونیورسٹی آف سیالکوٹ ، پٹاک ، سرگودھا انڈسٹری اور قائداعظم یونیورسٹی کی ٹیم ایک پروٹو ٹائپ وینٹی لیٹر کو تیزی سے بنانے کے لئے دن رات کام کر رہی ہے۔

اسی طرح کے نظریات پر کام کرنے والی دوسری ٹیموں کو بھی مقامی وینٹیلیٹر بنانے کے لئے اس میں شامل ہونے کے لئے مدعو کیا گیا ہے۔

پٹاک PITAC ابتدائی طور پر پنجاب حکومت کے جزوی لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند تھا۔ انجیر عرفان جو کے ڈائریکٹر پٹاک PITAC ہیں نے ذاتی کوششیں کیں اور پروٹو ٹائپ کی تیاری میں آسانی کے لئے پٹاک PITAC کو جزوی طور پر کھول دیا۔

پٹاک PITAC تمام سائنس دانوں کو اور جدید نظریات کو جو وینٹلیر کے پروٹو ٹائپ بنانے میں مدد گار ہیں کا خیرمقدم کرتا ہے اور ہر قسم کی دستیاب سہولیات کی فراہمی کا یقین دلاتا ہے۔

رضاکار وں کی ٹیم کی تیاری

ایک اور عظیم اقدام جیسے کے وزیراعظم نے ہر ضلع میں شدید بحران کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ایک ٹیم ٹائیگر فورس تیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یونیورسٹی آف سیالکوٹ نے اپنے 1000 سے زاید سابق طلباء اور دیگر نوجوانوں پر مشتمل ایک ٹیم بنائی ہے۔ جو کے کورونا سے متعلق عوامی خدمات کے لئے تربیت فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کامیاب ماڈل کے بعد یہ ماڈل دوسرے اضلاع میں بھی تیار کیا جائے گا۔ اسی طرز پر دوسری یونیورسٹیز بھی والنٹیرز پروگرام شروع کرنے جارہی ہیں۔

آن لائن تعلیم کا نظام

یونیورسٹی آف سیالکوٹ نے اپنا انتظامی نظام LSM تیار کیا ہے جو بہت ہی صارف دوست ہے۔ اسی طرح رفاہ یونیورسٹی نے آن لائن نظام معلم تیار کیا ہے۔ یونیورسٹیز کے نظام کی بدولت اساتذہ اور طلبہ گھر سے آن لائن درس و تدریس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ یہ نظام اب دوسرے اداروں اور تنظیموں کو پیش کیا گیا ہے تاکہ تعلیم کا عمل چلتا رہے۔

Leave a reply