روح _قربانی. تحریر:تحریر : چوہدری عطا محمد

0
51

عید _ قربان کا موسم ہے ہر طرف قربانی کے جانوروں کے رنگ دکھائی دیتے ہیں تو کہیں بکروں کا جھرمٹ تو کہیں بچھڑوں کے ڈیرے ہیں. رنگا رنگ اور دیدا زیب جانوروں سے سڑکیں اور ویران جگہیں رونقیں بکھیر رہی ہیں. لوگ جوق در جوق منڈیوں کا رخ کرتے دکھائی دیتے ہیں. کچھ کامیاب لوٹتے تو کچھ اپنی تلاش کے سلسلے کو بڑھانے کی ٹھان واپس لوٹ جاتے ہیں. درس و تدریس کے عمل میں بھی موسم _ قربان کا رنگ دکھائی دینے لگا ہے اور جمعہ کے خطبات اور دیگر محافل میں اس کے تذکرہ جاری و ساری ہے. ہر شخص اس موضوع کو اپنے انداز و زاویے سے اپنی گفتگو کا حصہ بناے ہوئے ہے. سوال تو ہی ہے کہ اس قربانی کی ضرورت کیوں؟
اس میں امت کیلئے کیا سبق ہے؟
ایک بات تو یہ کہ اس قربانی کے زریعے سمجھایا گیا کہ رب العالمین جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے آزمائش دیتا ہے. پھر اس آزمائش میں جو جتنا بہتر صبر و برداشت سے پورا اترتا ہے اتنا ہی اس کا درجہ بلند کر دیتا ہے. انبیاء کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مال و اولاد کا امتحان کا سلسلہ ہوا.
سمجھنے کے لیے موضوع کے قریب قریب مثال عرض کرتا چلوں.

رب العالمین نے قرآن کریم میں کس شان سے زکر کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دیکھیں
مقصد رضا الہی ہونا چاہیئے
پھر جب آگ میں پھینکے جانے کی آزمائش سے گزرے تو اولاد کی دعا کی

رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۰۰)فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ(۱۰۱)

ترجمۂ کنز العرفان

اے میرے رب! مجھے نیک اولاد عطا فرما۔ تو ہم نے اسے ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری سنائی۔

تفسیر صراط الجنان

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وصف:
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حلیم اور بُردبار لڑکے کی بشارت دی اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خود بھی حلیم تھے،جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ‘‘(توبہ:۱۱۴)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا، بہت برداشت کرنے والا تھا۔

اورارشاد فرمایا: ’’اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ‘‘(ہود:۷۵)

ترجمۂکنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم بڑے تحمل والا ،بہت آہیں بھرنے والا، رجوع کرنے والا ہے۔

اولاد بھی مانگی تو مقصد رب العالمین کا فرمانبرداری اور اسی کی رضا ہی تھی.
پھر اسی بیٹے کے زریعے آزمائش کا سلسلہ شروع ہوا.
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰى فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰىؕ-قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ٘-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۰۲)

ترجمۂ کنز العرفان

پھر جب وہ اس کے ساتھ کوشش کرنے کے قابل عمر کو پہنچ گیا توابراہیم نے کہا: اے میرے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں ۔اب تو دیکھ کہ تیری کیا رائے ہے ؟بیٹے نے کہا: اے میرے باپ! آپ وہی کریں جس کا آپ کو حکم دیاجارہا ہے۔ اِنْ شَاءَاللہ عنقریب آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی

سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
آج کی ماں ہوتی تو بیٹا باپ کی جدائی کے بعد انتقام لینے باپ کے سامنے کھڑا ہوتا قربان جائیں اس ماں سلام اللہ علیہا کی تربیت پر جب حکم خدا ہو تو کیا اولاد اور کیا گھر بار دنیا کی محبت. سب کی حیثیت بعد میں پہلے بات اللہ کی رضا.
پھرجب آزمائش کا وقت آیا اور

فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَ تَلَّهٗ لِلْجَبِیْنِۚ(۱۰۳)

ترجمۂ کنز العرفان

تو جب ان دونوں نے (ہمارے حکم پر) گردن جھکادی اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹایا (اس وقت کا حال نہ پوچھ)۔

تفسیر صراط الجنان

{فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا: تو جب ان دونوں نے (ہمارے حکم پر) گردن جھکادی۔} جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے فرزند نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سر ِتسلیم خم کر دیا اور جب حضرت ابراہیمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے فرزند کو ذبح کرنے کا ارادہ فرمایا تو ان کے فرزند نے عرض کی’’اے والد ِمحترم ! اگر آپ نے مجھے ذبح کرنے کا ارادہ کر لیا ہے تو پہلے مجھے رسیوں کے ساتھ مضبوطی سے باندھ لیں تاکہ میں تڑپ نہ سکوں اور اپنے کپڑے بھی سمیٹ لیں تاکہ میرے خون کے چھینٹے آپ پر نہ پڑیں اور میرا اجر کم نہ ہو کیونکہ موت بہت سخت ہوتی ہے اور اپنی چھری کو اچھی طرح تیز کر لیں تا کہ وہ مجھ پر آسانی سے چل جائے اور جب آپ مجھے ذبح کرنے کے لئے لٹائیں تو پہلو کے بل لٹانے کی بجائے پیشانی کے بل لٹائیں کیونکہ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ جب آپ کی نظر میرے چہرے پر پڑے گی تو ا س وقت آپ کے دل میں رقت پیدا ہو گی اور وہ رقت اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور آپ کے درمیان حائل ہو سکتی ہے اور اگر آپ مناسب سمجھیں تو میری قمیص میری ماں کو دیدیں تاکہ انہیں تسلی ہو اور انہیں مجھ پر صبر آ جائے ۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’ اے میرے بیٹے! تم اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے میں میرے کتنے اچھے مددگار ثابت ہو رہے ہو۔ اس کے بعد فرزند کی خواہش کے مطابق پہلے اسے اچھی طرح باندھ دیا، پھر اپنی چھری کو تیز کیا اوراپنے فرزند کومنہ کے بل لٹا کر ان کے چہرے سے نظر ہٹا لی، پھر ان کے حَلق پر چھری چلادی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں چھری کو پلٹ دیا،اس وقت انہیں ایک ندا کی گئی ’’اے ابراہیم ! تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا اور اپنے فرزند کو ذبح کے لئے بے دریغ پیش کر کے اطاعت وفرمانبرداری کمال کو پہنچادی، بس اب اتنا کافی ہے،یہ ذبیحہ تمہارے بیٹے کی طرف سے فدیہ ہے اسے ذبح کر دو۔ یہ واقعہ منیٰ میں واقع ہوا۔( بغوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۴ / ۲۸-۲۹، مدارک، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ص۱۰۰۶، ملتقطاً)

جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے فرزند کو ذبح کرنے کیلئے چلے تو شیطان ایک مرد کی صورت میں حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس آیا اور کہنے لگا’’کیا آپ جانتی ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آپ کے صاحبزادے کو لے کر کہاں گئے ہیں ؟ وہ تو آپ کے بیٹے کو ذبح کرنے کیلئے لے گئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا حکم دیا ہے۔حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا: ’’اگر انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو پھر اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے رب تعالیٰ کی اطاعت کریں۔ یہاں سے نامراد ہو کر شیطان حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پہنچا اور ان سے کہا ’’اے لڑکے!کیا تم جانتے ہو کہ آپ کے والد آپ کو کہاں لے کر جا رہے ہیں ؟ ’’خدا کی قسم! وہ آپ کو ذبح کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’پھر تو انہیں اپنے رب تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنا چاہئے، مجھے بسر و چشم یہ حکم قبول ہے۔ جب شیطان نے یہاں سے بھی منہ کی کھائی تو وہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پہنچا اور کہنے لگے’’اے شیخ! آپ کہاں جا رہے ہیں ؟حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’اس گھاٹی میں اپنے کسی کام سے جارہا ہوں ۔ شیطان نے کہا’’اللہ کی قسم! میں سمجھتا ہوں کہ شیطان آپ کے خواب میں آیا اور ا س نے آپ کو اپنا فرزند ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔اس کی بات سن کر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے پہچان لیا اور فرمایا’’اے دشمنِ خدا! مجھ سے دور ہٹ جا ،خدا کی قسم ! میں اپنے رب تعالیٰ کے حکم کو ضرور پورا کروں گا۔یہاں سے بھی شیطان ناکام و نامراد ہی لوٹا۔( خازن، والصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۳، ۴ / ۲۳)

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم

نہایت اس کی حُسین ابتدا ہے اسماعیل
پھر اگلی آیت میں رب العالمین کی جانب سے کامیابی کی بشارت ملی اور مقام کو مزید عروج دیا گیا.
وَ نَادَیْنٰهُ اَنْ یّٰۤاِبْرٰهِیْمُۙ(۱۰۴)قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْیَاۚ-اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۰۵)اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ(۱۰۶)وَ فَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ(۱۰۷)وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَۖ(۱۰۸)سَلٰمٌ عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ(۱۰۹)كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۱۰)اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱)

ترجمۂ کنز العرفان

اور ہم نے اسے ندا فرمائی کہ اے ابراہیم!۔ بیشک تو نے خواب سچ کردکھایاہم نیکی کرنے والوں کوایسا ہی صلہ دیتے ہیں ۔ بیشک یہ ضرور کھلی آزمائش تھی۔ اور ہم نے اسماعیل کے فدیے میں ایک بڑا ذبیحہ دیدیا ۔ اور ہم نے بعد والوں میں اس کی تعریف باقی رکھی۔ ابراہیم پرسلام ہو۔ ہم نیکی کرنے والوں کوایسا ہی صلہ دیتے ہیں ۔ بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں ۔

{وَ فَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ: اور ہم نے اسماعیل کے فدیے میں ایک بڑا ذبیحہ دیدیا۔} علامہ بیضاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں اس ذبیحہ کی شان بہت بلند ہونے کی وجہ سے اسے بڑا فرمایا گیا کیونکہ یہ اس نبی عَلَیْہِ السَّلَام کا فدیہ بنا جن کی نسل سے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں ۔ (بیضاوی، الصافات، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۵ / ۲۲)
بات عشق کی تھی صاحب.
عشق تو قربانی مانگتا ہے.
سیرت رسول کریم خاتم النبیںن محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اہل بیت سے واقعہ کربلا سمیت بے شمار واقعات ملتے ہیں. جہاں عشق حقیقی اپنی تکمیل کے لیے پیاروں کے پیار کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے. لیکن بات بہت دور نکل جائے گی. اور سیرت رسول کریم خاتم النبیںن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع میں اس پر بات ہو گی.

روح قربانی کیا ہوئی؟
1. کوئی بھی عمل کیجئے اس کی کامل مقبولیت رضا الہی کی نیت سے مشروت ہے
انبیاء کرام کی زندگیوں میں اس کی ڈھیروں مثالیں موجود ہیں اور ہم نے اوپر قرآن اور احادیث بھی سے یہی سیکھا ہے.
2. رب کریم جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسکی آزمائش میں اسکی مدد کرتا ہے اور اسے کامل بنا دیتا ہے اس لئیے صبر اور تحمل سے اس کے فیصلے کا انتظار کیجئے
ہم نے اوپر قرآن سے یہی سیکھا
3. قربانی سب سے پیاری چیز کی ہوتی ہم نے اوپر قرآن سے یہی سیکھا
اس لیے اللہ کی بارگاہ میں خرچ کرتے وقت عمدہ اور بہترین کا انتخاب کیجئے. تاکہ جب وہ اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے تو آپ کے اندر اس کی محبت بھی ہو اور اس پر رب العالمین کی راہ میں دینے والا جزبہ بھی کہ میں اپنی قیمتی چیز جس سے مجھے محبت ہے اپنے رب کی راہ میں اس کے حکم سے اپنی محبت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دیتا ہوں.
یہی روح_قربانی ہے کہ رب کا حکم نفس کی خواہش پر ہر طرح سے غالب رہے
والسلام
تحریر : چوہدری عطا محمد

Leave a reply