روشنی اور پتنگے!!! — ڈاکٹر حفیظ الحسن

0
36

پتنگے اور دیگر حشرات الارض جو اُڑتے ہیں ان میں ایک نیویگیشن سسٹم سا لگا ہوتا ہے جو انہیں رات کی تاریکی میں چاند۔ کی روشنی کی مدد سے راستہ بتاتا ہے۔ یہ نیویگیشن سسٹم ایک سادہ سے اُصول پر مبنی ہے جسے ٹرانسورس اورئینٹیشن کہتےہیں۔ اب یہ کیا بلا ہے؟ ٹرانسورس اورئنٹیشن دراصل یہ ہے کہ ایک پتنگا اپنی اُڑان کے دوران چاند سے ایک مستقل زاویے پر رہتا ہے جس سے اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کس سمت جانا یے یا کونسی سمت بدلنی ہے کہ چاند سے اسکا زاویہ ہمیشہ ایک رہے۔

اب چاند چونکہ زمین سے دور ہے اور آسمان میں اپنی جگہ آہستہ سے بدلتا ہے لہذا ایک پتنگے کا چاند سے ایک مستقل زاویہ رکھ کر اُڑنا آسان ہے۔ پتنگے کے نقطہء نظر سے چاند اسکی اُڑان کے وقفے میں جگہ نہیں بدلتا۔ ویسے ہی جیسے آپ سڑک پر گاڑی دوڑاتے جائیں اور چاند بھی آپکو اپنے ساتھ دوڑتا نظر آتا ہے۔ ہم انسان بھی اس طریقہ کار کو ماضی میں استعمال کرتے رہیں راستہ ڈھونڈنے کے لیے جب ہم قطبی ستارے سے شمال کی سمت کا تعین کر کے لمبے راستوں پر سفر کیا کرتے تھے۔

مگر پتنگے کی قسمت خراب کہ انیسویں صدی میں ایڈیسن صاحب آئے اور بلب کی ایجاد کو پیٹنٹ کر دیا۔ اب ہر طرف برقی قمقمے ہیں۔ دنیا میں چوبیس گھنٹے ہر جگہ جہاں انسان رہتے ہیں وہاں روشنی رہتی ہے۔ چاہے سورج کی ہو یا بجلی سے جلے مصنوعی بلب اور روشنیوں کی۔

چونکہ اس عمل کو گزرے چند صدیاں ہی ہوئی ہیں لہذا پتنگے اور دیگر حشرات ارتقائی طور پر اس تبدیلی کو کہ اب ہر طرف رات میں مصنوعی روشنیاں ہوتی ہیں، میں خود کو مکمل ڈھال نہیں سکے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جب ایک پتنگا یا کیڑا روشنی کے قریب آتا ہے تو اسکی آنکھیں تیز روشنی سے اول تو چندھیا جاتی ہیں کیونکہ انہیں چاندکی مدہم روشنی کی عادت ہوتی ہے اور دوسرا یہ کہ بلب یا مصنوعی روشنیوں کے ساتھ پتنگے مستقل زاویہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو چونکہ یہ روشنی انکے بے حد قریب ہوتی ہے تو مستقل زاویہ رکھنے کے چکر میں یہ چکرا جاتے ہیں اور دائرے میں گھومنے لگتے ہیں۔ یوں بیچارے پتنگے صبح تک گھومتے گھومتے تھک کر نڈھال ہو جاتے ہیں اور دم توڑ دیتے ہیں۔ روشنی کے بلبوں سے بار بار ٹکرا کر اور بلب سے آتی حدت سے انکی ننھی جانیں دارِ فانی کو کوچ کر جاتی ہیں۔

اقبالِ لاہوری کا ایک شعر تھا:

مگَس کو باغ میں جانے نہ دیجیو
کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا

مگس یعنی شہد کی مکھی کو باغ میں نہ جانے دو کہ وہ پھولوں سے رس چرائے گی اور شہد کے ساتھ موم بھی بنے گا جس کی شمع سے پروانے جل جائیں گے۔
اتنا لمبا کنکشن بنانے پر میں اقبالِ لاہوری کو داد دیتا ہوں۔مگر اس شعر میں زمانے کے مطابق تبدیلی کچھ یوں ہونی چاہئے تھی۔

ایڈیسن کو لیب میں جانے نہ دیجیو
کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا

و آخر دعوانا

Leave a reply