روس پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف تعاون بڑھانے کو تیار ہے،صدر پیوٹن

ماسکو: روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے مستونگ میں گزشتہ روز ہونے والے خودکش حملے پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف تعاون بڑھانے کو تیار ہے-
باغی ٹی وی : روسی سفارت خانے کے مطابق صدرپیوٹن نے صدرعارف علوی اور نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے نام تعزیتی پیغام بھیجاروسی صدر کا کہنا تھاکہ مذہبی تقریب میں حملے نے ایک بارپھر دہشت گردی کی بربریت کو اجاگر کردیا، مجرموں کو سزا سے قطعی نہیں بچنا چاہیے روس پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف تعاون بڑھانے کو تیار ہے،روسی صدر نے جاں بحق افراد کے لواحقین سے ہمدردی اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
حقائق نے بار بار ثابت کیا ہے کہ امریکا "جھوٹ کی
خیال رہے کہ گزشتہ روز بلوچستان کے ضلع مستونگ میں مدینہ مسجد کے باہر عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس میں خودکش حملہ ہوا تھا خودکش دھماکے میں جاں بحق افرادکی تعداد 59 ہوگئی ہے،ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر مستونگ کے مطابق 52 اموات نواب غوث بخش میموریل اسپتال میں ریکارڈ کی گئیں،6 اموات سول اسپتال میں ریکارڈ ہوئی اور ایک جاں بحق شخص کی لاش بی ایم سی کمپلیکس میں موجود ہے،حملے میں زخمیوں کی مجموعی تعداد 66 ہے، جن میں سے 52 کو سول اسپتال کوئٹہ لایا گیا تھا، ان زخمیوں میں سے 25 زخمی اب بھی شہر کے مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
رواں مالی سال کیلئے ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی
دوسری جانب روس نے افغانستان میں غیر علاقائی عناصر کی بڑھتی شمولیت پر تشویش کا اظہار کیا ہے ماسکو فارمیٹ کے تحت افغانستان کی صورتحال روس کے شہر کازان میں اجلاس ہوا جس میں روس، چین، پاکستان، ایران کے نمائندے اور طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی شریک ہوئے۔
اجلاس میں افغانستان میں غیر علاقائی عناصر کی بڑھتی شمولیت پر روس نے تشویش کا اظہار کیا اور روسی نمائندہ خصوصی نے کہاکہ طالبان دہشتگرد گروہوں اور خاص طور داعش کا مقابلہ کرنے میں غیرمؤثر رہے، طالبان بھی افغانستان کے شدید اقتصادی مسائل کا حل تلاش کرنے میں ناکام رہے ہیں، نسلی گروہوں کی شمولیت کے بغیر افغانستان میں امن ممکن نہیں۔
موبائل چوری و ڈکیتی کا 24 گھنٹوں میں ایف آئی آر
جبکہ روسی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ طالبان کو تسلیم کرنا جامع حکومت کے قیام کی بنیاد پر ہوسکتا ہے، افغانستان میں غیر علاقائی عناصر کی بڑھتی شمولیت پر روس کو تشویش ہے۔