خارکیف میں روسی جنرل ہلاک: مذاکرات ناکام:حالات مزید بگڑنے لگے
کیف: خارکیف میں روسی جنرل ہلاک: مذاکرات ناکام:حالات مزید بگڑنے لگے ،اطلاعات کے مطابق یوکرین نے جنگ کے دوران روسی میجرجنرل کوہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
یوکرین کی وزارت دفاع کے مطابق روسی میجرجنرل وتالی گریسموف خارکیف کے قریب یوکرینی فوجیوں سے جھڑپ کے دوران ہلاک ہوئے۔جھڑپ میں متعدد دیگرروسی فوجی بھی ہلاک اورزخمی ہوئے۔
یوکرینی حکام کا کہنا تھا کہ روسی میجر جنرل چیچنیا اورشام میں بھی روسی فوجی آپریشن میں شریک تھے۔روس نے میجر جنرل کی ہلاکت کی اطلاعات پرکوئی ردعمل نہیں دیا۔
دوسری جانب یوکرین پرشدید روسی شیلنگ کے باعث شہریوں کا محفوظ مقامات کی جانب انخلا رک گیا۔یوکرین میں ہزاروں افراد بجلی سے محروم ہیں۔ ماریپول شہرمیں خوراک اورپانی کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔غیرملکی میڈیا کے مطابق روس اوریوکرین کے درمیان مذاکرات کے تیسرے دور میں کوئی خاص پیشرفت نہ ہوسکی۔
دوسری طرف روسی حملے کے بعد سے یوکرینی مہاجرین مسلسل اپنی اور بچوں کی زندگیاں بچانے کے لیے سرحدی ممالک مالدووا، پولینڈ اور رومانیہ کا رخ کیے ہوئے ہیں۔ یوکرینی شہروں تاتاربوناری، اوڈیسا کے علاوہ سرحدی شہر گالاٹی سے بڑے پیمانے پر ہجرت جاری ہے۔ روس نے اپنے خلاف پابندیوں کو ایرانی جوہری مذاکرات سے کیوں جوڑا؟ ان شہروں سے بے شمار لوگ پاپیادہ روانہ ہیں اور کئی افراد اپنی کاروں پر راہِ فرار اختیار کیے ہوئے ہیں۔ان علاقوں میں موسم ابھی بھی سرد ہے اور درجہ حرارت دو ڈگری سیلسیئس ہے جب کہ تیز ہوا نے اس موسم کو اور سرد کر رکھا ہے۔ سردی کی وجہ سے بڑی عمر کے مہاجرین کو شدید گہری پریشانی کا سامنا ہے۔
مغرب کی سمت جانے والے مہاجرین ہزاروں یوکرینی مہاجرین روزانہ کی بنیاد سے جنگی حالات سے پریشان ہو کر ہمسایہ ممالک پہچنے کی کوشش میں ہیں۔ ان میں بہت سارے اپنی موٹر گاڑیوں پر سوار ہیں۔ مقامی حکام کا کہنا ہے کہ جنوبی یوکرینی شہروں کے پچھتر فیصد لوگ مغرب کی سمت رومانیہ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ رومانیہ کی وزارتِ داخلہ نے ڈھائی ہزار کے قریب یوکرینی مہاجرین کے پہنچنے کی تصدیق کی ہے۔
رومانیہ کی سرحد پر کئی مہنگی کاریں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔یہ کاریں یوکرین کے متمول افراد کی ہیں۔ یہ امیر افراد زیادہ تر بحیرہ اسود کے کنارے پر واقع خوبصورت بندرگاہی شہر اوڈیسا میں رہتے ہیں۔
رومانیہ کی سرحد پر کئی رضاکار یوکرینی مہاجرین کی رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ ایک رضاکار لڑکی ماریانا کا کہنا ہے کہ یہاں شدید سردی میں بے شمار مہاجرین کو بڑی مشکل کا سامنا ہے اور ان کے پاس آگے کہیں جانے کی ٹرانسپورٹ بھی نہیں۔ ماریانا اس صورت حال پر خاصی برہم اور پریشان ہیں کہ کئی بڑی بڑی کاروں میں صرف دو افراد بیٹھ کر پولینڈ اور مالدووا پہنچ رہے ہیں اور اور وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ کچھ اور افراد کو اپنے ساتھ بٹھا کر آگے مہاجرین کے مرکز تک لے جائیں۔
بظاہر رومانیہ کی سرحد پر انتظامات بہتر دکھائی دیتے ہیں اور لوگوں کو سرحد عبور کرنے میں تاخیر نہیں ہو رہی۔ اس سرحدی مقام پر مالدووا کی سرحد بھی ملتی ہے اور اس جانب بھی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد داخل ہونے کی خواہشمند ہے۔
ابھی تک مالدووا اور رومانیہ میں مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کا جذبہ بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ ان سرحدوں پر بے شمار رضا کار مہاجرین کی رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ وہ ان مہاجرین کو ہر طرح کی معلومات اور مدد فراہم کرتے ہیں