سیاسی استحکام کے لیے تمام جماعتوں کو ساتھ بیٹھ کر بات چیت کر نا ہوگی. خواجہ سعد رفیق

0
32

سیاسی استحکام کے لیے تمام جماعتوں کو ساتھ بیٹھ کر بات چیت کر نا ہوگی. خواجہ سعد رفیق

وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ پریم کورٹ میں ریلوے سے متعلق کیس لگ گیا ہے اور چیف جسٹس نے کہا کہ ریلوے لائف لائن ہے جبکہ اب ہم شفاف اور بہترین پلان لیکر پیش ہوں گے. انکا کہنا تھا کہ ریلوے کو بہتر بنانے کےلیے ریاستی تعاون کی ضرورت ہے، ہم سے جو ممکن ہوا ریلوے کے کی بہتری کے لیے کریں گے، اور سیلاب آیا خیبرپختونخوا اور پنجاب حکومت نے مرکز کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا.

انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی استحکام کے لیے تمام جماعتوں کو ساتھ بیٹھ کر بات چیت کر نا ہوگی جبکہ سیاسی اتفاق رائے ضروری ہے ،سب کو ہمت کرکے ایک دوسرے سے بات کرنی چاہیے، اور سیاسی استحکام کے لیے آگے آنا تمام جماعتوں کی ذ مہ داری ہے. ان کے مطابق وفاقی حکومت تنہا سیاسی استحکام نہیں لاسکتی لہذا سیاسی جماعتوں کو کھینچاتانی کے بجائے معاشی استحکام کے لیے سوچنا چاہیے جبکہ احتساب قبر میں ڈال دیا گیا،مائنس کسی کو نہیں کیاجاسکتا۔

وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ مرکز اور صوبوں میں اختلاف رہاہے مگر ملکی مفاد کے لیے آگے جانا ہوگا اور کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کو مائنس نہیں کیا جاتا وہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جبکہ کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کو مائنس نہیں کیا جاتا وہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جبکہ اداروں کی بہتری کے لیے اقدامات کیے ہیں، جلد نتائج سامنے آجائیں گے۔ اور سیاست دان اتنا لڑتے ہیں کہ ایک کی چونچ اور ایک کی دم رہ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا ایک پارٹی آئی ہوئی ہے جس نے ملک میں عذاب ڈالا ہوا ہے. لہذا پنجاب میں پرویزالہٰی چلے بھی جائیں ہماری حکومت آ بھی جائے تو سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو قبر میں ڈال دیا گیا، مائنس نہیں ہوئے۔ لہذا کسی کو پھانسی لگا کر ،جیلوں میں ڈال کر مائنس نہیں کیا جا سکتا۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ اربوں ڈالر کا قرض لینے کو ہی آج عوام بھگت رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ریلوے گالف کلب کی لیز سے متعلق کیس کی سماعت کی، جس میں سیکرٹری ریلوے نے عدالت کو بتایا کہ ایم ایل ون 9.8 ارب ڈالر کا منصوبہ ہے اور ایکنک اس کی منظوری دے چکا ہے۔ عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اربوں ڈالر قرض لے کر منصوبے لگانے کی بات ہر کوئی کرتا ہے۔ ملک میں اربوں ڈالر کا انفرا اسٹرکچر پہلے سے موجود ہے، اس پر کیا ڈلیوری ہے؟۔ اربوں ڈالر کا قرض لینے کو ہی آج عوام بھگت رہے ہیں۔

علاوہ ازیں چیف جسٹس نے دوران سماعت یہ ریمارکس بھی دیے تھے کہ چھٹیوں کے دوران سندھ میں ریل کا سفر کیا ہے۔ سندھ میں ریلوے لائنوں کے اطراف آج بھی سیلابی پانی کھڑا ہے۔ بارشیں گرمیوں میں ہوئی تھیں، پانی اب تک نہیں نکالا جا سکا۔ ریلوے افسران نے بتایا کہ بلوچستان میں صورتحال سندھ سے بھی ابتر ہے۔ بین الاقوامی جریدے دی اکانومسٹ نے پاکستان کی سڑکوں پر ضمیمہ چھاپا تھا۔عالمی ضمیمے کا عنوان تھا ’’وہ سڑکیں جو کہیں نہیں جاتیں‘‘۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کو یہ پرتعیش آسائشیں نہیں، پرفارمنس اور استعداد کار چاہیے۔ اربوں ڈالروں کے منصوبے لگانے سے عدالت امپریس نہیں ہوگی۔

Leave a reply