
سیاسی جماعتوں میں سیاستدان کم مخبروں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے البتہ بے نقاب بھی ہورہے ہیں۔ سیاستدانوں کی لڑائیاں اب سیاسی نہیں ذاتی دشمنی پر اتر آئی ہیں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی‘ آئین اور قانون کی حکمرانی کے نعرے باقی رہ گئے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے تنازعات میں ایک دوسرے کو ننگا کررہی ہیں۔ ان حرکات سے جمہوریت کی پری بھی مکھڑا چھپا رہی ہے۔ عالمی دنیا اپنے مفادات کی جنگ لڑرہی ہے ہمارے سیاستدان ریاست اور عوام کے مسائل کو پس پشت ڈال کر اقتدار کی جنگ میں مصروف عمل ہیں دنیا ہمارا تماشا دیکھ رہی ہے۔ سیاسی تماشائیوں میں عوام کی امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔ ملکی اداروں کو متنازعہ بنا دیا گیا یا متنازعہ بنایا جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن سے لیکر تمام اداروں کو متنازعہ بنا کر ہم اس ملک کی کونسی خدمت کررہے ہیں۔
سیاستدان سراپا احتجاج‘ عوام سراپا احتجاج‘ تاجر سراپا احتجاج‘پی ڈی ایم میں شامل خود سیاسی جماعتیں سراپا احتجاج‘ صحافی سراپا احتجاج۔ آخر انہیں کس نے اتنا مجبور کردیا ہے کہ سب سراپا احتجاج ہیں؟تمام سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے ملک میں نہ آئین ہے نہ آئین اور قانون کی حکمرانی ہے نہ کوئی انسانی حقوق ہیں۔ ان حالات میں پنجاب اور کے پی کے کے الیکشن بھی مشکوک ہوگئے ہیں۔ آئین تو انتخابات کا راستہ دکھاتا ہے اگر موجودہ حکومت نے پنجاب اور کے پی کے میں بروقت انتخابات نہ کروائے تو معاملہ عدالتوں میں چلا جائے گا۔ اگر وفاق انتخابات نہیں کرواتا تو پھر یہ آئین سے روگردانی ہوگی۔ امید تو یہی ہے کہ وفاق ایسا نہیں کرے گا اگر ایسا کیا تو اس کے نتائج بھیانک ہوسکتے ہیں۔
ملک اور عوام کے مفاد میں مقتدر حلقوں اور قومی سلامتی کمیٹی کو مل کر سیاسی خلفشار کو کم کرنے کی راہ نکالنی چاہئے اور تمام سیاسی جماعتوں کا ڈآئیلاگ اور اس کے ساتھ ساتھ معاشی گرداب سے ملک کو نکالنے کے لئے وطن عزیز کے تمام اعلیٰ پائے کے معیشت دانوں کے ساتھ بامقصد کانفرنس کرکے تجاویز لی جائیں اور قابل عمل راہ اختیار کی جائے۔ تمام سیاسی مصلحتوں اور پسند ناپسند سے بالاہو کر حکومت اور مقتدر حلقوں کو خلوص کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ معاشی بحران پاکستان ہی نہیں امریکہ سمیت عالمی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ خود ڈیفالٹ ہونے کے قریب تر ہے تاہم ڈیفالٹ سے بچنے کے لئے امریکی سیکرٹری خزانہ جانیٹ پالین نے کانگریس سے درخواست کی ہے کہ وہ قرض کی حد از جلد بڑھا دے تاکہ تاکہ ڈیفالٹ کے خطرے کو ٹالا جاسکے۔