سفر نامہ تحریر: اسامہ اسلام

0
49

یہ تقریباً سن 2015 کی بات ہے. رمضان کا مہینہ ختم ہونے والا تھا .سب لوگ عید کی تیاریوں میں مگن تھے. ہم نے تو اپنی تیاری مکمل کر لی تھی لیکن جو مشکل کام تھا وہ رہتا تھا اور وہ کام تھا یہ فیصلہ کرنا کہ عید میں گھومنے کہاں جائینگے.
میں اور میرے دوست فرمان جنہیں ہم پیار سے "مانے” بلاتے ہیں اور عابد جس کا لقب "گل” ہے ,ہر وقت بیٹھے مشورے کرتے.
عید گزری لیکن ہم فیصلہ نہ کرپائے کہ کہا جانا ہے, آخرکار میں معمول کے مطابق گھر سے نکلا, اپنی موٹرسائیکل نکالی اور اپنے دوستوں کو لینے ان کے گھر پہنچا.
گیٹ کے سامنے ہارن بجائی تو صاحبان خوابِ غفلت سے بیدار ہوئے نشیلی آنکھوں کے ساتھ باہر آئے.
خیر جو بھی ہوا, یم نے اپنے سفر کا آغاز کیا لیکن ہمیں معلوم نہ تھا کہ ہم کہاں جارہے ہیں. ہم نے نوشہرہ کی طرف رُخ کیا , جب نوشہرہ پہنچے تو لوگوں سے پوچھا کہ یہاں پر کوئی سیر کرنے کی جگہ بتائے. ایک بندے نے "بہادر بابا” کے مزار کا نام لیا. یہ نوشہرہ سے تقریباً ۲۰ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے. ہمارا کیا تھا, جوان تھے, خون میں مستی تھی اور کھلے پرندوں کی طرح ہوا جس طرف لے جاتی, ہم چلے جاتے. ایک موٹرسائیکل پر تین بندوں نے "بہادر بابا” کے مزار کی طرف اپنے سفر کا آغاز کیا.
گرمی کی جھلسا دینے والی لہریں جب ہمارے گالوں سے ٹکراتی تو دل سے پتہ بتانے والے کے لیے بد دعائیں نکلتی اور ان بد دعاؤں میں اضافہ تب ہوتا جب ان پہاڑی رستوں سے گزرتے گزرتے موٹرسائیکل کسی کھڈے میں گر جاتا. ہم نے راستے میں اپنا خوب مزاق اڑایا لیکن ساتھ ساتھ ہمارے منہ سے کچھ ایسے نازیبہ الفاظ بھی نکلے تھے جس کا تذکرہ میں کرنے والا ہوں.
کوئی کہتا کہ "بہادر بابا کو اتنی دور آنے کی کیا ضرورت تھی” تو کوئی کہتا کہ "وہ بیل پر سوار ہو کر آئے تھے” (استغفراللہ) اللہ معاف کرے .
جب ہم وہاں پہنچے تو ١۲ بج چکے تھے.میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ میں موٹرسائیکل ایک جگہ پر کھڑی کر کے آتا ہوں. میں ٣ منٹ کے لیے گیا اور جب واپس آیا تو میرے دوست غائب تھے. میں نے یہاں وہاں ہر جگہ دیکھا لیکن ان کا کوئی نام و نشان نہ تھا. ہم نیچھے تھے اور مزار پہاڑی کے اوپر تھا. میں نے اس شدید گرمی میں تقریباً ۷ سے ۸ چکر کاٹے , اوپر گیا مزار پر , پھر نیچھے آیا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا کیونکہ ہجوم اتنا تھا کہ اسے ڈھونڈنا محال تھا.
جس طرح میں ان کو ڈھونڈ رہا تھا , اسی طرح وہ بھی میں تلاش میں جگہ جگہ بٹک رہے تھے.
چونکہ ہم کم عمر تھے اور ایک دوسرے کو ایسی جگہ کھونا جو کہ ہمارے گھر سے کافی دور تھا , کافی پریشان کن تھا. جی کر رہا تھا کہ یہاں چیخ چیخ کر رو لوں.
آخر کار جب ٣ بج گئے تو میں نیچھے ایک پہاڑی کے سائے میں ٹیک لگا کر بیٹھ گیا . میرے سامنے ہماری وہ ساری باتیں آنے لگی جو ہم نے راستے میں "بہادر بابا” کے بارے میں کی تھی.
میں نے اسی وقت جلدی سے توبہ کیا کہ ہو سکتا ہے ہمیں ان باتوں کی سزا مل رہی ہو جو ہم نے "بہادر بابا” کے بارے میں کی تھی, یہ تو اللہ کے ولی ہے, اللہ کے خاص بندے .
میں انہی سوچو میں گم تھا کہ میری کانوں میں فرمان کی آواز پڑی جو کہی دور سے مجھے پکار رہا تھا.
اس آواز نے مجھے انتہائی گہرے سوچ سے بیدار کیا, جب میں نے "مانے” اور "گل” کو دیکھا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی, میں اپنے جزبات پر قابو پائے بغیر ان کی طرف بھاگا اور جٹ سے دونوں کو گلے لگا کر خوب رویا.
اس کے بعد دوستوں کے ملنے پر اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنے ساتھ یہ عہد کیا کہ آج کے بعد کبھی بھی کسی اللہ کے ولی کے بارے میں کچھ غلط نہیں کہیں گے.
پھر موٹرسائیکل پر سوار ہو کر واپس پہنچے تو رات کے ۸ بج چکے تھے. رات کا کھانا ساتھ میں کھایا, اس کے بعد اپنا خوب مزاق اڑایا اور اپنے اپنے گھر کو چلے گئے.

Leave a reply