بلاگ: پاکستان میں نفاذ اردو، اس کام کے لئے کتنی ذہانت کی ضرورت ہے؟ از پروفیسرسلیم ہاشمی

0
44

بلاگ: پاکستان میں نفاذ اردو، اس کام کے لئے کتنی ذہانت کی ضرورت ہے؟
پروفیسر محمد سلیم ہاشمی، فاطمہ قمر پاکستان قومی زبان تحریک

دنیا بھر میں جو جس ملک کی زبان ہے وہی اس کی قومی اور سرکاری زبان ہے۔ یہ کرنے کے لئے کسی ذہانت، سوچ بچار، تدبیر یا ترکیب لڑانے کی ضرورت نہیں۔ غلاموں یا غلام رہوں کی بات چھوڑ دیں، آپ ازاد، خود مختار، با وقار اور ترقی یافتہ ملکوں کے نام لیتے جائیں یہی حقیقت سامنے آئے گی۔ کچھ ملکوں کے نام میں لے دیتا ہوں باقی دنیا کے بارے میں آپ خود غور فرما لیں۔
امریکہ، برطانیہ، روس چین، جاپان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، اسٹریا، فرانس، جرمنی، ہالینڈ، سپین، ترکی، ایران، بیلجیم، برازیل، ارجنٹائن وغیرہ وغیرہ۔
میں نے کچھ دن پہلے ایک جگہ سوال کیا کہ یہاں موجود کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ادب کے علاوہ اعلی’ تعلیم حاصل کرنے کے دوران میں اپنی کوئی ایک نصابی کتاب مکمل پڑھی یو، آج تک اس سوال کے جواب سے محروم ہوں۔
پاکستانی حکمرانوں کی ذہانت کس معیار کی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ ان کو یہ معمولی ترین بات بھی سمجھ میں نہ آ سکی کہ جب یہ ملک پاکستانیوں کا ہے تو یہاں پاکستانی زبان نافذ کی جائے۔ بڑی معذرت کے ساتھ اس میں بہت بڑا ہاتھ ان لوگوں کا بھی تھا جو اردو کے نام پر قائم اداروں میں بڑی بڑی کرسیوں پر براجمان تھے اور جو نفاذ اردو کی ہر کوشش کو چند باتوں سے ناکام بناتے رہے۔
یہ ملغوبہ زبان ہے
اس میں اصطلاحات نہیں ہیں
اس میں کتابیں نہیں ہیں
اس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں مواد نہیں ہے۔ اور پھر مشکل مشکل عربی اور فارسی میں لتھڑی ہوئی اصطلاحات پیش کر کے ثابت کر دیتے تھے کہ یہ بہت مشکل زبان ہے۔
برباد ہوں یہ لوگ جو جامعہ عثمانیہ اور دیگر علمی اداروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے چیزوں کو از سر نو کرنے کی کوشش کرتے رہے اور اس طرح نفاذ اردو کا راستہ مسدود کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔
پاکستان کی بدقسمتی کہ یہاں پر عرصہ دراز تک حکومتوں پر ان لوگوں کا قبضہ رہا جو انگریزوں سے تربیت یافتہ اور ان کے محکوم رہے تھے اور ان کی ثقافت، تہذیب، بودوباش اور زبان سے اپنے جسم کے خلیوں تک میں مرعوب تھے۔

کیا کیا جائے؟
ہمیں اس طلسم کو توڑنا یوگا اور اس اثر سے باہر نکلنا ہوگا کہ ہم اردو میں کام نہیں چلا سکتے اور یہ کہ ہمارے لئے انگریزی بہت ضروری ہے۔
کیا اس طرح کی سوچ، فرانس، جرمنی، جاپان، چین، روس یا ترکی کے افراد سوچ سکتے ہیں۔ اگر ہمارے لئے انگریزی کسی بھی حوالے سے ضروری ہے تو اتنی اتنی رکھ لیں جتنی ان ملکوں میں ہے، باقی جیسے ان ملکوں میں ان کی زبان نافذ ہے اردو نافذ کر دیں۔

ہم انگریزی میں بہت زیادہ بھیگے ہوئے ہیں؟
کوئی بات نہیں انگریزی کو باہر نکالیں ہماری روح اور جسم ہلکا پھلکا ہو جائے گا، ہم۔حیران ہو ہو کر ایک دوسرے سے پوچھتے رہیں گے کہ اتنے سال ہم یہ غلاظت اپنے اوپر مل کر کیوں پھرتے رہے۔
افسوس ہے پچھلے حکمرانوں پر جن کے دور میں عدالت عظمیٰ نے نفاذ اردو کے لئے انتہائی واضح اور دو ٹوک حکم صادر فرمایا۔ ان کی ذہنی مفلسی کا یہ عالم کہ ان کو یہ ادراک تک نہ ہوا کہ ان کے ہاتھ میں الہ دین کا چراغ رکھ دیا گیا ہے۔ وہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے، آئین پاکستان اور پاکستان کے عوام کی توہین کرتے رہے اور قدرت نے ان سے اس توہین کا کھل کر بدلہ لیا۔
یہ بڑی سیدھی سادی بات ہے، ایک جمع ایک دو جیسی، جو ملک جو اس کی زبان وہ اس کی قومی اور سرکاری زبان، یہ بات جاننے کے لئے کسی اعلیٰ ذہانت کی ضرورت نہیں ہے، اور اس پر عمل کرنے کے لئے کسی بہت بڑے تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تو اپنے گھر میں رہنے بسنے زندگی گزارنے جیسی بات ہے۔ آدمی کب تک ہوٹلوں میں رہ سکتا ہے، وہاں کا کھانا کھا سکتا ہے ہر شخص کو اپنے گھر میں رہنے کی وہاں بسنے کی خواہش ہوتی ہے۔
خیال رہے انگریزی کسی پاکستانی کی زبان نہیں ہے، پاکستان کی زبان نہیں ہے، اس سے جس قدر جلد چھٹکارا حاصل کر لیا جائے یہ پاکستان اور اس میں بسنے والے عوام کے لئے اتنا ہی ضروری ہے

Leave a reply