سلجوقی سلطنت کا خاتمہ.تحریر: محمد سمیع اللہ

0
186

سلجوقی سلطنت کا خاتمہ.تحریر: محمد سمیع اللہ

سلجوق سلطنت کے آخری طاقتور بادشاہ محمد شاہ کے انتقال کے بعد سلجوق سلطنت آہستہ آہستہ اپنے زوال کی جانب جانے لگی۔ ملک شاہ جب فوت ہوا تو اس نے اپنے پیچھے چار بیٹے چھوڑے۔ برکیاق، محمد ، سنجر اور محمود۔ محمود جو کہ بعد میں ناصر الدین محمود کے نام سے پہچانا گیا بچہ تھا۔ اسکے ہاتھ پر بحث کی گئی۔ کیونکہ اس کی ماں ترکان خاتون کو ملک شاہ کے دور حکومت میں بڑی قدر ومنزلت حاصل تھی۔ محمود تقریبا دو سال 485ھ بمطابق 1092 ء تا 487ھ بمطابق 1094ء تک حکمران رہا۔ کیونکہ انکا اور انکی والدہ کا وصال ہو گیا۔ ان کے بعد رکن الدین ابو المظفر برکیاق بن ملک شاہ آیا۔ اور 498ھ بمطابق 1105ء تک حکمراں رہا۔ پھر رکن الدین ملک شاہ ثانی کے ہاتھ پر بیعت ہوئی۔ اور اسی سال اقتدار غیاث الدین ابو شجاع محمد کے ہاتھ لگا اور وہ 511ھ بمطابق 1118ء تک حکمراں رہا۔
عظیم دولت سلجوقیہ کا آخری حکمراں غیاث الدین ابو شجاع محمد تھا۔ جس کا پایہ تخت مارواء النہر کا علاقہ تھا خراسان، ایران اور عراق کے علاقوں پر بھی اس کی حکمرانی تھی۔ بالآخر 511ھ بمطابق 1118ء کو شاہنات خوارزم کے ہاتھوں اسکا خاتمہ ہوا۔
ماوراءالنہر سے سلجوقیوں کی سلطنت کے خاتمے کے ساتھ ہی سلاجقہ افتراق و انتشار کا شکار ہو گئے۔ اور ان کی وحدت پارہ پارہ ہو گئی۔ انکی طاقت اس قدر کمزور ہو گئی کہ سلجوقی متعدد گروہوں اور باہم متصادم لشکروں میں تبدیل ہو گئے جو تخت و تاج حاصل کرنے کے لئے باہم دست و گریباں رہتے تھے۔ عظیم سلجوقی سلطنت چھوٹی چھوٹی امارات اور دول میں تبدیل ہو گئی۔ اور یہ امارات اور سلطنتیں کسی ایک سلطان کے اقتدار کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوئی جیسا کہ طغرل بیگ سلطان الپ ارسلان ، ملک شاہ اور اسکے اسلاف کے دور میں متحد تھی۔ ہر ایک علاقہ خود مختار تھا۔ ہر ایک کا اپنا فرمانروا تھا اور ان میں کسی قسم کا کوئی تعاون نہیں تھا۔
اس افتراق و انتشار کے نتیجے میں مارواءالنہر میں ایک اور طاقت ابھر کر سامنے آئی۔ یہ خوارزمی سلطنت تھی جو ایک عرصہ تک منگولی حملوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی رہی۔ خوارزمی سلطنت کے ساتھ سلجوقی امارات، عراق اور شام کے شمال میں قائم ہوئیں۔ جو اتابک امارات کے نام سے پہچانی جاتی تھی۔ اسی عرصہ میں سلاجقہ روم کی سلطنت سامنے آئی۔ یہ وہ سلطنت تھی جس نے صلیبی حملوں کو روکا اور ایشیائے کوچک کا شمال مغربی کونا دشمن کے دست وبرد سے محفوظ رکھا۔ لیکن یہ سلطنت منگولوں کے تابڑ توڑ حملوں کا مقابلہ نہ کر سکی اور بالآخر ان غارت گروں نے ان علاقوں میں تباہی مچا دی۔
سلجوقی سلطنت کے سقوط میں چند عوامل کار فرما تھے اور یہی عوامل عباسی خلافت کے سقوط کا پیش خیمہ ثابت ہوئے
ان عوامل میں چند ایک یہ ہیں

1) سلجوقی گھر کے اندر بھائیوں، چچاؤں، بیٹوں اور پوتوں کے درمیان تخت و تاج کے لئے چپقلش۔
2) بغص امراء، وزراء اور اتابکوں کی طرف سے سلجوقی حکمرانوں کے درمیان فتنہ و فساد کی آگ بھڑکانا۔
3) حکومتی امور میں خواتین کا عمل دخل۔
4) عباسی خلفاء کا سلجوقی فوجی قیادت کے سامنے کمزور اور بے بس ہونا اور ہر طاقتور سلجوق تاجور کی حکومت کو تسلیم کر کے خطبہ میں اس کے نام کو شریک کرنے کی اجازت دے دینا اور اس سلسلے کی طرف احتیاط نہ کرنا۔
5) سلجوقی سلطنت کا شام ، مصر اور عراق کو عباسی خلافت کے جھنڈے کے نیچے متحد کرنے میں ناکام ہونا۔
6) سلجوقیوں کا مختلف گروہوں میں تقسیم ہو کر ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہنا۔ اسی چیز نے انکی قوت کا خاتمہ کیا اور عراق میں انکی سلطنت ختم ہو گئی۔
7) سلجوقی سلطنت کے خلاف باطینیوں کی مذموم سازشیں اور سلجوقی سلاطین ان کے قائدین، زعماء کو دھوکے سے قتل کرنے کی انکی مسلسل کوششیں اور خونی حملے۔
8) سمندر پار سے آنے والے صلیبی جنگجو اور سلجوقی سلطنت کا یورپ سے آنے والے وحشی لشکروں کے ساتھ ٹکراؤ ۔
اسکے علاؤہ کئی دوسرے اسباب بھی تھے۔
لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کہ اپنے دور حکومت میں انہوں نے عظیم کارنامے انجام دیے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں ۔
1) سلجوقی سلطنت کی بدولت عباسی خلافت کا زوال دو صدیاں مؤخر ہو گیا۔ اگر سلجوقی نہ ہوتے تو شیعہ رافضیوں کے ہاتھوں بہت پہلے عباسی خلافت کا وجود مٹ جاتا۔
مصریوں کی سلطنت عبیدی فاطمی سلجوقیوں کی طاقت کہ وجہ سے مشرق کے عرب مسلمانوں کو باطینی عبیدی رافضی سلطنت کے جھنڈے تلے جمع نہ کر سکی اور انکے مذموم مقاصد پورے نہ ہوئے۔
3) دولت سلجوقی کی کوشیش اسلامی مشرق کے اتحاد کی تمہید اور پیش خیمہ تھی اور یہ اتحاد سنی سلطنت عباسی کے جھنڈے کے نیچے سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں مکمل ہوا۔
4) سلجوقیوں نے اپنے زیر نگیں خطے میں علمی اور انتظامی ترقی کے حوالے سے بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اور اس علاقے میں امن و امان قائم کیا۔
5) بیزنطینی شہنشاہیت کی طرف سے ہونے والے صلیبی حملوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کافی حد تک منگولی خطرے سے نمٹنے کی کوشش کی۔
6) ان علاقوں میں سنی مذہب کی ترویج کی اور سنی علماء کی قدرومنزلت کو بڑھایا۔

Leave a reply