سرائیکی خطے کی رنگین چنی، دلہنوں کا دلکش پہناوا
سرائیکی خطے کی رنگین چنی، دلہنوں کا دلکش پہناوا
تحقیق و تحریر: ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی
altafkhandahir@gmail.com
قسط کا خلاصہ
اس قسط میں چنی کی ثقافتی اہمیت اور اس کے سرائیکی وسیب کی پہچان پر زور دیا گیا ہے۔ چنی سرائیکی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے، جس میں مقامی ہنر مندوں کی محنت اور مہارت شامل ہے۔ یہ لباس نہ صرف دلہن کی خوبصورتی کو بڑھاتا ہے، بلکہ اس کی عزت اور وقار کا بھی اظہار کرتا ہے۔ چنی شادی کے مختلف مواقع پر پہنا جاتا ہے اور اس کے ذریعے سماج میں یکجہتی اور محبت کو فروغ ملتا ہے۔
دوسری قسط
چنی کا ثقافتی پہلو اور سرائیکی وسیب کی شناخت
رنگوں کی اپنی ایک مخصوص زبان اور اظہار ہوتا ہے۔رنگ کو زندگی کی خوبصورت علامت سمجھا جاتا ہے۔خوشی غمی دونوں میں رنگ کا ایک اپنا کردار رہا ہے۔شادی کی تقریبات میں خواتین رسم مہندی و جاگا پر چنی نہ صرف زیبائش کے لیے پہنتی ہیں۔ بلکہ یہ مختلف ثقافتی و سماجی تہواروں و رسومات میں بھی شامل ہے،جیسے بچے کی پیدائش،منگنی شادی کی تقریب،برات کی تقریب، گانا چھوڑانے کی رسم،عیدیا دیگر خوشی کے مواقع پر اس کا استعمال ہوتا ہے۔
پہلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سرائیکی خطے کی رنگین چنی، دلہنوں کا دلکش پہناوا
یہ رسم و رواج کا حصہ بن چکی ہے، جس سے خاندانوں اور سماج میں آپس میں محبت، یکجہتی،احساس ہمدردی اور رواداری کو فروغ ملتا ہے۔سرائیکی لوگ اپنے گھروں میں چنی کی خوبصورت رسم کو ساری رات جھمر رقص کی شکل میں گانوں کی دھنوں پر ادا کرتے ہیں۔
سرائیکی چنی بنانے کے لیے مقامی کاریگروں کو سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کام مقامی صنعت کے ساتھ معیشت کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ چنی کی تیاری اور فروخت مقامی سطح پر روزگار کے مواقع بھی فراہم کررہی ہے۔خواتین گھروں میں کام کرتی ہیں۔بازاروں میں بھی کام کیا جاتا ہے۔ بہاولپور کے شاہی بازار،رنگیلا بازار میں خصوصا خواتین کی بناو سنگھار کی اشیاء فروخت ہوتیں ہیں،جن میں چنی کو خاص مقام حاصل ہے۔
پورے سرائیکی وسیب سمیت اسلام آباد، لاہور، ملتان، پشاور، کراچی، سکھر، پاکستان بھر کی خواتین سرائیکی خطے کی خاص چنی کو پہننا اپنے لیے عزت، شان،وقار، اعزاز و محبت کی علامت سمجھتی ہیں۔چنی میں ایک الگ جمالیاتی،جذباتی اور نفسیاتی اثر انگیزی پائی جاتی ہے۔چنی خواتین کی خود اعتمادی اور خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ کرتی ہے۔یہ ان کے حسن،ثقافتی شناخت کا زیور اور اعلی کلاسک پہناوا بن چکی ہے۔اس کے ذریعے خواتین اپنی روایات،تہذیب وتمدن، تاریخ،کلچر،رتبہ،عزت اور خاندان کی محبت کا اظہار کرتیں ہیں،جو ان کے تخیلاتی معیارات،جذباتی
اور نفسیاتی سکون کے لیے اہم ہے۔
سرائیکی وسیب میں چنی کی اہمیت صرف ایک روایتی لباس کی حد تک محدود نہیں بلکہ یہ اس علاقے کی پہچان،امن ومحبت،ثقافت،ادب، تہذیب و تمدن اور معاشرے کی رنگین گہرائیوں سے جڑی ہوئی ہے۔ماضی میں سرائیکی وسیب اور دیگر علاقوں میں دلہن کے لباس کو مکمل سمجھنے کے لیے چنی کا ہونا ضروری جانا جاتا تھا۔
کیونکہ یہ ایک مخصوص سرائیکی علاقے روہی چولستان بہاولپوری ثقافتی اور روایتی رنگوں کی خوشبو کا عکاس ہے۔آج جدید ٹیکنالوجی کے دور میں اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔اس کی ڈیمانڈ دبئی،سعودی عرب،انگلینڈ،امریکہ،انڈیا راجستھان تک ہے۔جہاں جہاں سرائیکی افراد موجود ہیں وہ اپنی روایتی رنگولی چنی کو خوشی و شادمانی کی علامت سمجھ کر اعزاز و شان سے پہن کر فخر محسوس کرتے ہیں۔
امیر ترین سابق سرائیکی عباسیہ ریاست بہاولپور کے دیہاتی علاقے عباس نگر، چنی دا گوٹھ (چنیاں بناون والیاں دی چھوٹی وستی) جس کی چنیاں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔اس کے علاوہ تحصیل احمد پور شرقیہ اور قدیم تاریخی شہر اوچ شریف میں بھی گھروں میں محنت کش خواتین چنیوں کے کپڑے پر خوبصورت گوٹہ کناری کا باریک کام کرکے دوسرے شہروں میں فروخت کے لیے بھیجتی ہیں۔احمد پور شرقیہ کے محلہ شکاری کی خود دار بیوہ خالہ سلمی اپنے گھر اپنی یتیم بچیوں کے ساتھ سارا سارا دن چنی پر گوٹہ کناری سے سخت محنت طلب کام کرکے اپنے غریب خاندان کا پیٹ پال رہی ہیں۔
اسی طرح سوشل میڈیا رپورٹ کے مطابق بہاولپور،ڈیرہ بکھا، تحصیل خیر پور ٹامیوالی،چشتیاں ،حاصل پور، بہاول نگر روڈ پر واقع عباس نگر دیہات کی گیارہ سال کی عمر سے ہی چنیاں بنانے والی امیر مائی کا کہنا ہے کہ پہلے صرف چولستان کی خواتین ہی اس کو پہنتی تھیں،لیکن اب بہاولپور کی چنیوں کی طلب پوری دنیا میں ہو رہی ہے۔روہی چولستان میں نان مسلم ہندو کمیونٹی، جن کو سرائیکی وسیب میں مڑیچہ کہا جاتا ہے،قدیم وادی ہاکڑہ تہذیب و تمدن کے ڈیراوری قبائل میں بھیل،کول،سنتھال صدیوں سے اپنی رنگین چنی کے پہناوے سے منسلک آ رہے ہیں۔عباس نگر گاؤں کی بنی ہوئی رنگ برنگی، مخصوص پکے ٹھپے کے ڈائزین سے بنی چنیاں نہ صرف بہاولپور بلکہ پوری دنیا میں ایک الگ پہچان رکھتی ہیں ۔۔
جاری ہے