سردار سراج خان رئیسانی ایک محب وطن پاکستانی ازقلم: محمد عبداللہ گِل

0
175

سردار سراج خان رئیسانی_ایک محب وطن پاکستانی
ازقلم محمد عبداللہ گِل
جس جس خاص و عام نے وطن عزیز پاکستان کی فلاح اور ترقی کی بات ہے وہ دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹے کی مانند کھٹکھٹا ہے۔پھر چاہے پاکستان کے کسی بھی صوبے سے تعلق رکھتا ہو اس سے فرق نہیں پڑتا۔1971ء میں بھارت جو کہ پاکستان کا ازلی دشمن ہے پروپیگنڈا کر کے ہمارا پانچواں بازو یعنی کہ مشرقی پاکستان کو الگ کر دیا۔اسی طرح اب بھارت نے بلوچستان جو کہ معدنیات سے مالامال ہے،رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔اس میں بلوچوں کو پاکستان کے مخالف کرنا شروع کر دیا لیکن جب اس وہاں سے منہ کی کھانی پڑی تو اس نے کچھ ایسے نمک حرام انسانوں کو تلاش کیا جو کہ تھوڑے سے ٹکوں کی خاطر وطن عزیز پر حملے کر سکتے ہیں ان کو خرید لیا۔جو کہ آج کل( بی ایل اے ) بلوچستان لبریشن آرمی اور ٹی ٹی پی کے نام کے ساتھ پاکستان میں دہشت گردی کر رہی ہے لبادہ تو پاکستان کا ہوتا ہے اسلام کا ہوتا ہے لیکن در حقیقت وہ را RAW کے پالتو ہوتے ہیں۔جس میں یہ حال ہی کا واقعہ ہے کراچی سٹاک ایکسچینج مارکیٹ پر حملہ ہوا اور اس کی ذمہ داری بی ایل اے نے لی۔
اس طرح ان کے مد مقابل ایسے بھی محب وطن بلوچ بھائی ہیں جنھوں نے اپنی ہر شے وطن کے لیے قربان کر دی۔انھی شیروں میں سے ایک شہید سراج رئیسانی بھی تھے

۔سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

یہ وہی میر سراج رئیسانی تھے جنہوں نے وطن کی محبت میں آزادی ریلی نکالی اور دو کلومیٹر طویل پاکستانی پرچم تیار کراکے بلوچستان کے گلی کوچوں میں آزادی مارچ کروایا جب بلوچستان میں سبز ہلالی پرچم لہرانا اور ترانا گانا ایسا سنگین جرم بنا دیا گیا تھا جس کی سزا موت سے کم نہ تھی وہ ایسا محب وطن تھا جو تقاریر کا اختتام پاکستان زندہ باد کے نعرے سے کرتا تھا۔ ویسے اس ملک میں محب وطن ہی دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں۔ نواب سراج رئیسانی وہ شیر تھا جو اکیلا پاکستان کا پرچم لئے سارے بلوچستان میں لہرانے نکل پڑا تھا۔

شہید سراج بلوچ باغیوں کے مقابل سینہ تانے کھڑا تھا وہ فراری کیمپوں پر قہر بن کر نازل ہوتا تھا وہ ہر محاذ پر پاکستان دشمنوں کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چیلنج کر رہا تھا اداروں کی ترجیحات ضرورت کے مطابق بدلتی رہتی ہوں گی لیکن شہید سراج کا مرکز و محور اوّل و آخر صرف اور صرف پاکستان رہا وہ پاکستان کے لئے جیا اور اسی کےلئے جام شہادت نوش کیا۔ حب الوطنی کی میراث کے امین نوابزادہ سراج رئیسانی شہید کے دو سنگین ”جرائم“ تھے۔ بھارتی ترنگے کے جوتے بنوانا اور دو کلومیٹر طویل سبز ہلالی پرچم لہرانا۔
کیا خوب کہا جاتا ہے

شہید کی جو موت ہے
وہ قوم کی حیات ہے

سراج جان رئیسانی شہید رحمتہ اللہ کی شہادت کے بعد بلوچوں کو بھی سمجھ آئی کہ یہ سارا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔اور یہ سراج خان رئیسانی شہید کی شہادت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج بلوچستان بھی پاکستان کا حصہ ہے وگرنہ دشمن قوتیں پرپیگنڈا سے ہمارا یہ بازو بھی چھین لیتی
کہا جاتا ہے

وطن کے بیٹوں کے لئے ان کی وفا وسرفروشی پر فیض احمد فیض کے الفاظ میں خراج عقیدت پیش ہے۔

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان توآنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

میدانِ وفا دربار نہیں یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں

عاشق تو کسی کا نام نہیں، کچھ عشق کسی کی ذات نہیں

گربازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا

گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں

سچا پاکستانی بہادر بلوچ سردار بھارتی ترنگے کا جوتا بنانے والے کٹر پاکستانی نواب سراج رئیسانی شہید کو سلام’ صد سلام، جو سب سے پہلے مسلمان تھا۔…. پھر پاکستانی تھا۔۔۔ پھر بلوچ تھا۔۔۔۔۔ یہ شہید رئیسانی تھا۔۔۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ سراج رئیسانی کی شہادت پر ہندوستانی کیوں جشن منا رہے ہیں۔

شہید کا خون بھی رائیگاں نہیں جاتا،
اللہ ان کی شہادت کو قبول فرما کر ان کو جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام عطا فرمائے اور ملک عزیز پاکستان کو دشمن قوتوں سے محفوظ رکھے
آمین

Leave a reply