سرداری غلامی تحریر،،محمد ابراہیم

0
26

اور سرداروں کے راتب خوروں کی نشانیاں۔
الیکشن میں انھوں نے اپنے اپنے سردار کو فرشتہ ثابت کرنا ہوتا ہے اور انکی صاف دامنی کی قسمیں کھاتے ہیں اپنے آپ سے بھی بڑا حاجی نمازی ثابت کرتے ہیں۔

الیکشن جیتنے کے بعد جس پارٹی میں سردار شامل ہوگا وہ جماعت انکی ماں باپ بن جاتی ہے اس جماعت کو وہ پاکستان کی سب سے اچھی جماعت ثابت کرینگے چاہے الیکشن سے پہلے اس جماعت کو جتنی بھی گالیاں دیتے تھے وہ سب بھول جاییگے۔

حکومت کے پہلے تین سال اسکے خوب گن گاتے رہینگے لیکن آخری دو سال حکومت کو گالیاں دیتے ہیں تاکہ آئیندہ الیکشن میں اگر سردار(لوٹا) اس پارٹی کو چھوڑ کر کہیں اور چلا جائے تو لوگ کارکردگی کا سوال نہ کریں اگر کریں بھی تو انکو یہی جواب دیا جایئگا کہ دیکھا نہیں ہم کہتے تھے یہ حکومت ٹھیک نہیں ہے تبھی تو سردار نے اس پارٹی کو چھوڑ دیا۔

سردار کے ہر برے کام کا دفاع کرنا سردار کی ہر برائی کو اچھائی بتانا سرداری نظام کو اسلامی نظام کے بالکل قریب بتانا یہ انکا فن ہے۔

مجھے یاد نہیں کہ ہمارے منتخب شدہ ان سردار نمائندوں نے کبھی اسمبلی میں اپنے وسیب کیلے آواز بلند کی ان سرداروں نے ہمارے بچوں کو قلم ،دینے کی بجائے کلاشنکوف انکے ہاتھ میں تھمائی کیوںکہ انکو پتہ ہے آگر نوجوانوں کو تعلیم جیسی سہولیات دی گئی سکول کالج انکو بنا کر دیے گئے تو کل کو یہ ہماری غلامی کرنے کے بجائے ہمارے خلاف کھڑے ہوسکتے ہیں،

یہ جتنی بھی ڈیرہ غازی خان میں گینگز بنی اگر ان پر ریسرچ کی جائے تو انکے تانے بانے ہر بار ان سرداروں سے ہی کیوں جاکر ملتے ہیں ،
چلو پچھلی گینگز کو چھوڑیں لادی گینگ جسنے ہمارے علاقے وسیب میں ظلم کا بازار سرگرم کیے رکھا اس گینگ کو 2008 میں سردار محسن عطا کی سرپرستی میں بنایا گیا سیمنٹ فیکٹری سے بھتہ لینے کی خاطر

یہ گینگ ان سرداروں کی سرپرستی میں پروان چڑھا اور آخر میں اس گینگ نے ظلم کی وہ تاریخ رقم کی جسکی مثال نہیں ملتی ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے وزیراعظم عمران خان نے اس گینگ کے خلاف نوٹس لیا بالاآخر کچھ دن پہلے سیکورٹی فورسز کی جانب سے اس گینگ کے کمانڈر سمیت کچھ لوگوں کو مارا گیا اور کچھ نے گرفتاری دی ،

سوال یہ ہے یہ گینگز آج ختم ہوگئی لیکن اسکے بنانے والے آج بھی موجود ہیں انکے خلاف بھی کارروائی کی جائے نہیں تو کل کو یہ سردار پھر کوئی دوسرا گینگ بنا لیں گے اپنے مفادات حاصل کرنے کیلئے ،
آخر میں بات پھر وہی آتی ہے کہ اگر ہمیں سرداروں غلامی کی زندگی سے نکلنا ہے تو ان سرداروں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا نہیں تو ہمیں ہمارے آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی ،

ان سرداروں نے ہماری سوچ کی گلی سولنگ اور نالی پکی تک محدود کر کے رکھ دیا ہے ہم انگریز کی غلامی سے تو نکل گئے لیکن آج بھی ہم انگریز کے اس چھوڑے ہوئے نظام سرداروں کی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں

یہ صرف میرا محمد ابراہیم کا کوئی ذاتی معاملہ نہیں بلکہ وسیب کے ہر نوجوان اور باشعور انسان کو اس سرداری غلامی کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونے کی ضرورت ہے ،پھر جاکر ہمیں آزادی حاصل ہوگی نہیں تو یہ غلامی کی زنجیریں آپکا مقدر ہونگی ،

Twitter , @IbrahimDgk1

.

Leave a reply