مودی نے دنیا میں ہماری ناک کٹوا دی، بھارتی میڈیا مودی سرکار پر برس پڑا

0
33

مودی نے دنیا میں ہماری ناک کٹوا دی، بھارتی میڈیا مودی سرکار پر برس پڑا
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق چین سے ہھیلنے والا خطرناک کرونا وائرس بھارت میں پھیل چکا ہے، کرونا کی وجہ سے بھارت میں طویل ترین لاک ڈاؤن نافذ ہے اور مودی سرکار کرونا کے حوالہ سے بالکل بے بس نظر آتی ہے، کرونا مریضوں کو ایک طرف مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا تو دوسری جانب بے روزگاری کا سیلاب آیا اور مودی سرکار نے کسی کی کوئی مدد نہیں کی

بھارتی میڈیا نے بھی بھارتی وزیراعظم مودی پر اس ضمن میں تنقید کرنا شروع کر دی ہے ، بھارتی میڈیا نے کہا ہے کہ ایسے لگ رہا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا تقریباً دوسرا سب سے بڑا ملک بغیر حکمران کے چل رہا ہے۔ کیونکہ محض 4 گھنٹے میں لاک ڈاؤن کرنے والے چند لوگوں پرمشتمل حکومت کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کریں، ایک ایڈوائزری کے بعد دوسری ایڈوائزری آجاتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو لوگ حکمران کے کردار میں ہیں ان کی عقلوں پر پتھر پڑ چکے ہیں- بی جے پی، مودی حکومت اس وباء پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ ان کے پاس تدابیر کرنے کے دعوے ہیں، انتظامات کے کھوکھلے دعوے ہیں، لیکن عوام کو دن بہ دن مشکلات سے ہو کر گزرنا پڑ رہا ہے۔

بھارت میں کورونا کی وجہ سے لاگو کیا گیا لاک ڈاؤن دنیا میں سب سے طویل مدت کا لاک ڈاؤن ہے۔ گزشتہ 60 دنوں سے بھارت کا ہر شہری لاک ڈاؤن کی مشکلات کا شکار ہو رہا ہے۔ اس دوران بیروزگاری اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ صرف اپریل میں ہی 2 کروڑ سے زائد افراد بھارت میں بیروزگار ہوئے ہیں۔ مودی سرکار کے پاس مہاجر مزدوروں کا ڈیٹا نہیں ہے۔ حکومت کے پاس صرف اتنا ریکارڈ ہے کہ 28 لاکھ لوگوں کی مدد کی۔ جب کہ یہ کوئی نہیں بتا رہا ہے کہ وزیر اعظم کیئرس فنڈ سے مزدوروں کو کتنا پیسہ دیا گیا۔ دنیا بھر میں لیبرمحکمے ہیں اور ہر ملک کا محکمہ اپنے لوگوں کی نوکری اور بیروزگاری کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ اس ہفتے کتنے لوگوں کو نوکری ملی ہے، کتنے لوگ بے روزگار ہوئے ہیں لیکن بھارت کا محکمہ لیبرخود سے یہ نہیں بتاتا کہ کتنے لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔

سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی کے تازہ سروے کے مطابق اپریل میں 12 کروڑ 20 لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے ہیں، ان کی نوکری گئی ہے، ان کا کام چھن گیا ہے۔ 24 مئی تک 10 کروڑ 20 لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔ ان گھروں میں کتنی مایوسی ہوگی، گھر خاندان پر کتنا برا ذہنی دباؤ پڑ رہا ہوگا۔ جس ملک میں 22 کروڑ سے زیادہ لوگ بے روزگار ہوئے ہوں وہاں میڈیا کی خاموشی سینکڑوں سوال کھڑے کرتی ہے- مسئلہ یہ ہے کہ طویل عرصہ تک دوسرے علاقوں میں بھی کام ملنے کا امکان کم ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں نوکری گئی تو وہاں مل جائے گی۔ مگر ان سے نام نہاد حکمرانوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ حالات کیسے بھی ہوں موج لیڈروں کی رہے گی،

بھارتی میڈیا نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ بھارت میں مزدوروں کو ان کے گھر لے جانے والی ٹرینیں بغیر نیوی گیشن کے چل رہی ہیں جس سے مزدوروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مودی حکومت کے پاس نہ کوئی وژن ہے نا کوئی پلان، صرف ایک کے بعد ایک قدم ہوا میں اٹھائے جا رہے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ 11 سال میں ملک کی جی ڈی پی سب سے نچلی 4.2 فیصد پر پہنچ گئی ہے اور آخری سہ ماہی کی شرح 3.1 فیصد پہنچ گئی لیکن حکومت کچھ ٹھوس قدم اٹھانے کے بجائے اس کے لیے کورونا کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے۔

ایسا گزشتہ 160 سال میں بھی نہیں ہوا جب ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ مودی سرکار کو چاہیے تھا کی کورونا بحران میں لاک ڈاؤن کو صحیح طور سے لاگو کرتے، لیکن حکومت کے پاس کوئی پلان دکھائی نہیں دے رہا ہے جس کا خمیازہ عام لوگوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ دو ماہ سے زیادہ وقت سے ملک لاک ڈاؤن ہے لیکن کورونا کا بحران کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں لگتا ہے کہ آنے والے حالات اور بھی خوفناک ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں خود اپنی حفاظت کریں مودی سرکار کے بھروسے بیٹھے رہنے سے حالات سدھرتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

بھارتی میڈیا نے چین اور نیپال کے ساتھ سرحدی تنازعات پر بھی مودی سرکار کو نشانہ بنایا ہے، میڈیا رپورٹ میں کہا گیا کہ نیپال ہمارا سب سے بڑا دیرینہ حلیف رہ چکا ہے۔ نیپال نے ابھی حال ہی میں اپنا ایک نقشہ جاری کیا جس میں اس نے بھارت کا سرحدی علاقہ لیپو لیکھ، کالاپانی اور لمپیا دھورا کو اپناحصہ قرار دیا۔ حالانکہ نیپال نے قانونی درجہ دینے کے لیے اپنے دستور میں تبدیلی کے عمل کو ملتوی کردیا ہے، لیکن وہ اپنے اس موقف سے پیچھے بھی نہیں ہٹا ہے کہ مذکورہ علاقے اس کے حصے ہیں۔ نیپال کے وزیراعظم کے پی شرما اولی نے اس کے لیے نیپال کی کل جماعتی میٹنگ میں عام رضامندی حاصل کرنے کی بات کہی ہے۔ یعنی کہ اگرنیپال کی تمام پارٹیاں متفقہ طور پر نیپال حکومت کے موقف کی حمایت کردیتی ہیں تو نیپال مذکورہ علاقوں پر اپنے دعوے کو مزید مضبوطی کے ساتھ رکھے گا اور اس کے لیے وہ اپنے دستور میں تبدیلی بھی لائے گا۔

نیپال اگر ایک جانب سے بھارت کا پڑوسی ہے تو دوسری جانب اس کی سرحدیں چین سے بھی ملتی ہیں۔ لیکن افسوس کہ یہ ہمارا سب سے دیرینہ حلیف ہمارے قائدانہ رول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چین کے قائدانہ رول سے زیادہ متاثر ہوگیا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ہمیں اپنے عالمی قیادت کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ اعلان کرنا پڑتا ہے کہ بھارت نیپال کے ساتھ سرحدی تنازعہ سلجھانے کے لیے بات چیت کے لیے تیار ہے۔ یعنی کہ نیپال اپنے یہاں کی سیاسی پارٹیوں کی عام رضامندی حاصل کرتا ہے تو کرے، ہم اس سے اپنے ہی ملک کے حصے پر، اپنی ہی جانب سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ کیا دنیا کے کسی دوسرے ملک میں ایسا قائدانہ رول آپ کو کبھی دیکھنے کو ملا ہے؟ اگر ملا ہو تو ہمیں ضرور بتائیے گا۔

بھارتی میڈیا نے چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 25 مئی کو مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچول کنٹرول پر چین کی فوج تقریباً دس کلومیٹر تک بھارتی علاقے کے اندر تک گھس آئی اور اپنے بیرک بھی بنانے شروع کردیئے۔ بھارتی میڈیا سے تو یہ خبرغائب رہی لیکن غیرملکی سوشل میڈیا پر اس حوالہ سے جو خبریں آئیں اس سے معلوم ہوا کہ دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان کچھ جھڑپیں بھی ہوئیں ہیں۔

مشرقی لداخ کے ایل اے سی پر گزشتہ دو ماہ سے چین اور ہمارے ملک کے درمیان تناؤ قائم ہے۔ اس تنازعے کو سلجھانے کے لیے ہماری حکومت کئی اعلیٰ سطحی میٹنگ کرچکی ہے جس میں پردھان سیوک کے علاوہ راج ناتھ سنگھ، اجیت ڈووال، بین راوت اور تینوں افواج کے سربراہان شامل تھے۔ لیکن ابھی تک تنازعہ جوں کا توں برقرار ہے۔ چین نے دو سے ڈھائی ہزار فوجیں تعینات کر رکھی ہیں۔ چین لداخ کے ان علاقوں پر اپنا دعویٰ کرتا ہے جب کہ یہ ہماری سرحدوں کے اندر واقع ہیں۔ اگر ہمارے ساتھ چین کا یہ تنازعہ بڑھتا ہے تو یہ 2017 کے ڈوکلام تنازعے کے بعد کا سب سے بڑا تنازعہ ہوسکتا ہے۔ یعنی کہ ہمیں اپنی ہی سرحد کے اندر اپنے ہی علاقے کو اپنے ہی قبضے میں رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑ رہا ہے۔

بھارتی میڈیا نے مودی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے وزیراعظم کا قائدانہ کردار ہے،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سطح پرقائدانہ رول ادا کرنے کے دعویدار مودی کے اپنے ملک کے سرحدی علاقے کس قدر محفوظ ہیں۔

بھارتی میڈیا نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ اب صورتحال یہ ہے کوئی بھی ملک بھارت کے ساتھ کھڑا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی دوستی کو ہمارے پردھان سیوک اپنے لیے ایک معراج سے کم تصور نہیں کرتے۔ لیکن شاید یہ بھول جاتے ہیں ٹرمپ امریکہ نہیں ہیں اور امریکہ ٹرمپ نہیں ہے۔ امریکہ کے ہی سرکاری ادارے کئی بار بھارت پر تنقیدیں کرتے ہیں اور مذہبی منافرت پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے ہم پر پابندی عائد کرنے کی بات کرتے ہیں۔ مسلم ممالک کی تنظیم اوآئی سی اعلانیہ طور پر مودی حکومت پر تنقید کرچکا ہے۔ اسلاموفوبیا کی وبا سے متاثر ہونے والے مودی بھکت دبئی، کویت ہی نہیں بلکہ کینیڈا تک میں بھارت کی ناک کٹوا رہے ہیں۔

Leave a reply