امریکہ کی پالیسی شفٹ۔۔ آنے والے دنوں میں کیا کچھ ہونے والا ہے؟؟ سعودیہ عرب، اسرائیل اور بھارت کےگرد گھیرا تنگ۔۔مبشرلقمان کے انکشافات

0
29

امریکہ کی پالیسی شفٹ۔۔ آنے والے دنوں میں کیا کچھ ہونے والا ہے؟؟
سعودیہ عرب، اسرائیل اور بھارت کےگرد گھیرا تنگ۔۔

باغی ٹی وی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی اور اینکر پرسن مبشر لقمان نے اپنی تازہ یو ٹیوب ویڈیو میں کہا کہ صدر ٹرمپ کے حوالے سے میں نے آپ کو اپنی کل والی ویڈیو میں ایک بہت اہم بات بتائی تھی اور وہ یہ تھی کہ صدر ٹرمپ وائٹ ہاوس چھوڑنے سے پہلے تمام معاملات کو اس طرح سے پلان کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے جانے کے بعد وہ معاملات جو بائیڈن کے گلے کی ہڈی بن جائیں جس کو نہ تووہ نگل سکیں اور نہ ہی اوگل سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جو بائیڈن اپنی پوری الیکشن کمپئین میں یہ بات بار بار دہراتے رہے ہیں کہ وہ افغانستان سے فوجیوں کی تعداد کم نہیں کریں گے۔ لیکن ٹرمپ اپنے منصوبے پر قائم ہیں جیسا کہ وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ کرسمس تک اپنے تمام فوجیوں کو گھر واپس لانا چاہتے ہیں کیونکہان کے خیال میں ان ممالک میں امریکہ کی فوجی مداخلت امریکہ کو کافی مہنگی بھی پڑتی ہے اور اس کا کوئی بہت زیادہ فائدی بھی حاص نہیں ہو سکا ہے۔ اس لئے اب تیزی سے افغانستان اور عراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد کو کم کیا جا رہا ہے۔ ویسے بھی امریکی فوجیوں کی واپسی اس تاریخی معاہدے کی شرط تھی جس پر 29 فروری کو امریکہ اور طالبان نے دستخط کیے تھے۔
خود امریکی میڈیا کے مطابق جنوری تک افغانستان میں اس وقت موجود پانچ ہزار امریکی فوجیوں کی تعداد کم کر کے ڈھائی ہزار کر دی جائے گی جبکہ عراق سے پانچ سو امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد وہاں موجود فوجیوں کی تعداد بھی 2500 تک رہ جائے گی۔
اور یہ منصوبہ جو بائیڈن کے صدر کا حلف اٹھانے سے کچھ دن پہلے یعنی 15 جنوری تک مکمل کر لیا جائے گا۔ اس کے لئے ایک ایگزیکٹیو آرڈربھی تیار کیا جا رہا ہے۔
لیکن صدر ٹرمپ کے اس منصوبے کو ان کے ساتھی رپبلکن اور سینیٹ کے لیڈر Mitch McConnellکی جانب سے بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف امریکی قومی سلامتی اور امریکی مفادات کے دفاع میں ایک محدود لیکن اہم کردار ادا کر رہے ہیں، شدت پسند یہی چاہیں گے کہ دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور فوج اپنا سب کچھ سمیٹ کر گھر واپس لوٹ جائے۔ وہ یہی تو چاہتے ہیں۔
لیکن اگر صدر ٹرمپ اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے ایسا کر لیتے ہیں تواس کا براہ راست اثر طالبان اور افغان حکام کے درمیان مذکرات پر ہو گا ساتھ ہی یہ صورتحال جوبائیڈن کی نئی حکومت کے لئے بھی ایک چیلنج بن جائے گی۔
اورجو بائیڈن کو اس تمام صورتحال کا اندازہ بھی ہے یہی وجہ ہے کہ جو بائیڈن نے بیان دیا ہے کہ ٹرمپ اور ری پبلکن اختیارات کی منتقلی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی انتخابات میں شکست کے باوجود اس بات پر بضد ہیں کہ وہ امریکی صدارتی انتخابات جیت گئے ہیں۔ انہوں نے یہ دعویٰ اپنے حالیہ ٹوئٹر پیغام میں کیا ہے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ دوسری جانب امریکا کے سابق صدر باراک اوباما نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں جاری انتشار کے باعث واشنگٹن کے دنیا کی بڑی طاقتوں روس اور چین سے تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔ اور اوباما کے اس بیان سے آپ امریکی پالیسی میں آنے والے دنوں میں جو تبدیلی آنی ہے اس کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کے دور میں جو دوستانہ پالیسی اسرائیل، بھارت اور سعودیہ عرب کے لئے اپنائی گئی تھی وہ اب تبدیل ہو کر چین اور روس کی طرف جھکاو نظر آئے گا۔
مبشر لقمان نے کہا کہ سعودیہ عرب کی بات کی جائے تو اس کے گرد تو ابھی سے ہی گھیرا تنگ ہونا شروع ہو چکا ہے کچھ دن پہلے جو شاہ سلمان اور محمد بن سلمان نے ایران مخالف بیانات دئیے تھے ان پراب ایران کا موقف بھی سامنے آنا شروع ہو چکا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں سعودی فرماں روا کےالزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئےکہا گیا ہےکہ سعودی عرب اس طرح کے الزامات لگانے اور نفرتیں پھیلانے سے باز رہے۔ سعودی حکومت یہ جان لے کہ امن یمن کے لوگوں کو قتل کرنے سے حاصل نہیں کیا جاسکتا اور خطے کو پروپیگنڈے کے ذریعے بھی نہیں چلایا جاسکتا۔ سعودی عرب غلط راستے کی طرف واپس نہ آئے یہاں تنہائی کے شکار سعودی عرب کی بہتری کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ ایران کے اس سخت ردعمل کے علاوہ جرمنی کی طرف سے بھی سعودیہ عرب کو پریشانی کا سامنا ہے۔ جرمنی نے یمن میں ہونے والی جنگ کے باعث سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے پر پابندی عائد کرنے کی تجویز دی ہے۔ جرمنی کی چانسلر
Angela Merkel کی سربراہی میں قائم جرمن حکمران اتحاد نے مارچ 2018 میں ایک معاہدہ کیا تھا جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ یمن کی جنگ میں براہ راست حصہ لینے والے ممالک کو اسلحہ کی برآمدات روکی جائے۔ اور اب موجودہ حالات میں کیونکہ یمن میں جاری جنگ میں شدت آتی جا رہی ہے تو اس پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
لیکن سعودیہ عرب اس معاملے میں کسی کی بات سننے کو راضی نہیں ہے۔ سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے جرمنی کی حکومت کو کڑی تنقید کی نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یمن جنگ کی وجہ سے سعودیہ کو اسلحہ کی فروخت روکنے کی تجویز غیر منطقی ہے۔ اگر جرمنی سعودی عرب اور اتحادی ممالک کو اسلحہ نہیں بھی فروخت کرتا ، تو ہمارے پاس اور بھی متبادل موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی یمن میں قیام امن کے لیے جنگ جائز اور آئینی ہے۔ یہ جنگ ہماری مرضی کی نہیں، بلکہ ہمیں زبردستی اس جنگ کو لڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب دیگر ممالک سے بھی اسلحہ خریدتا رہا ہے اور آئندہ بھی خریدتا رہے گا۔
کچھ ایسا ہی حال امریکہ کے دوسرے اتحادی ملک اسرائیل کا بھی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی ٹرمپ کی حکومت کے آخری دنوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقبوضہ فلسطینی علاقے جیوات ہاماتوس میں نئی تعمیرات کا آغاز کروادیا ہے یہ وہ اہم ترین علاقہ ہے جو یروشلم اور ویسٹ بینک کے بیت الحم کے درمیان واقع ہے۔
مبشر لقان نے کہا کہ یورپین یونین نے اسرائیل کی جانب سے ان نئی تعمیرات پر شدید تشویش کا اظہارکیا ہےاورمطالبہ کیا ہے کہ وہ اس اہم اور نازک موقع پر امن کے خلاف ان منفی فیصلوں کو واپس لے۔ یورپین خارجہ امور کے سربراہ
Josep Borrell
نے کہا کہ اس طرح کی کوئی بھی تعمیر یروشلم کے مشترکہ دارالحکومت کے ساتھ ایک قابل عمل فلسطینی ریاست اور اس سے بھی بڑھ کر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ معیارات کے مطابق دو ریاستی حل کو نا ممکن بنا دے گی۔
یورپین یونین کا ایک طویل عرصے سے یہی مؤقف ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی تعمیرات بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہیں ۔
اور باقی رہی بات بھارت کی تو وہ بھی اب اپنا وہ گھناونا کھیل نہیں کھیل سکے گا جو کہ وہ پہلے کھیل رہا تھا۔ پاکستان اور ایران کے تعلقات جس طرح آگے بڑھ رہے ہیں تو اب بھارت ایران کے راستے پاکستان میں پہلے کی طرح دہشت گردی نہیں کر سکے گا۔ دوسرا جس طرح پاکستان نے بھارت کے خلاف دہشت گردی کے ثبوت پوری دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں تو اب بین الاقوامی برادری بھی بھارت کی دہشت گردی پر مزید آنکھیں بند نہیں کر سکتی۔ معاشی طور پر بھی جس طرح
Regional comprehensive economic partnrship
مبشر لقمان نے مزید کہا کہ معاہدے سے بھارت باہر ہوا ہے تو یہ بھی بھارت کے لئے ایک بڑا جھٹکا ہو گا۔ اور دفاعی معاملات میں بھی اسے چین جیسی سپر پاور کا سامنا ہے اس لئے ٹرمپ کی موجودگی میں جس طرح سے مودی سرکار اپنی غنڈہ گردی کرتی رہی ہے وہ بھی اب نہیں چلے گی۔
اس لئے اب آنے والے دنوں میں جہاں جوبائیڈن کے لئے نئے چیلنجز ہوں گے وہیں بھارت، اسرائیل اور سعودیہ عرب کے گرد بھی گھیرا تنگ ہونے والا ہے دیکھنا یہ ہے کہ یہ سب کیسے اب اس صورتحال سے باہر نکلیں گے۔۔

Leave a reply