سیلابی صورتحال میں بچوں کا تعلیمی مستقبل کیا ہوگا؟

0
19

سیلابی صورتحال میں بچوں کا تعلیمی مستقبل کیا ہوگا؟

پاکستان میں حالیہ غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے سیلاب نے سب سے زیادہ متاثر سندھ کو کیا ہے۔ اس قدرتی آفت کی وجہ سے سندھ کے 23 اضلاع اور ایک کروڑ 45 لاکھ سے زیادہ آبادی کو نقصان پہنچا ہے۔ سیلاب نے مجوعی طور پر 16 ملین بچوں کو متاثر کیا ہے، جنھیں صحت و غذا کے ساتھ تعلیمی سرگرمیاں معطل ہونے کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ فہمیدہ یوسفی نے اپنے مضمون میں لکھا کہ بے گھر ہونے والے خاندانوں کے پاس نہ تو غذا ہے اور نہ ہی صاف پانی۔ اسکولوں، پانی کا نظام اور صحت کی سہولیات کا اہم بنیادی ڈھانچہ تباہی کا شکار ہے۔ ایک جانب سندھ کے سیلاب متاثرین صحت اور غذا کے بحران کا سامنا کررہے ہیں، تو دوسری جانب سیلاب کی تباہ کاریوں نے بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔

ریلیف کیمپوں میں موجود یہ بچے شدید دکھ، خوف، پریشانی اور ذہنی اذیت کا سامنا کررہے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے نہ صرف اپنے گھر کو، اپنے پیاروں کو، اپنے پسندیدہ کھلونوں اور ماحول کو تو کھویا ہی ہے بلکہ اپنے اسکولوں کو بھی کھو دیا ہے۔ سندھ کے وزیر تعلیم سید سردار شاہ نے اپنے ایک بیان میں اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں بیس سے بائیس لاکھ بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ سندھ میں سرکاری اسکولز کی کل تعداد 44217 ہے، جن میں سے 22291 اسکولوں کی عمارتوں کو ریلیف کیپمپ میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ 5619 اسکولوں کی عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں، جبکہ 11922 اسکولوں کی عمارتوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ جس کا مطلب 17541 اسکولز کی عمارتیں متاثر ہیں، یعنی چالیس فیصد اسکول تباہ ہوگئے ہیں۔ تو پھر اس ایمرجنسی صورتحال میں بچوں کا تدریسی عمل کیسے بحال ہوگا؟

ذرائع کے مطابق محکمہ ایجوکیشن سندھ کے تحت تمام اضلاع میں ٹینٹ اسکول قائم کیے جارہے ہیں۔ اب تک پرائمری سطح کے 1254 ٹینٹ اسکولز قائم کیے جاچکے ہیں جبکہ سیکنڈری اسکولوں کی تعداد 146 ہے۔ مخلتف سیلابی کیمپس میں جاکر رضاکارانہ طور پر بچوں کو پڑھانے والوں کا کہنا ہے کہ بچے پڑھنا اور سیکھنا چاہتے ہیں اور ان کا رسپانس بہت مثبت ہے۔ لیکن ان بچوں کو کاؤنسلنگ کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ان کا یہ ٹراما بہت بڑا ہے اور ہم کوشش کررہے ہیں کہ ان کی مدد کریں اور ان کے ایج گروپس کے حساب سے مختلف قسم کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں سے ان کو مصروف رکھیں۔ ریلیف کیمپس میں تعلیمی سرگرمیاں بحالی ضروری ہے ریلیف کیمپوں میں عارضی طور پر ہی سہی لیکن تعلیمی سرگرمیوں کا محدود پیمانے پر ہی بحال کیا جانا بہت ضروری ہے۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ متاثرہ بچوں نے اپنے گھر ڈوبتے دیکھے، اپنی چیزوں کو تباہ ہوتا دیکھا اور لوگوں کو مرتے دیکھا ہے، اس سانحے نے جو نفسیاتی دباؤ ڈالا ہے بچوں کو اس نفسیاتی دباؤ سے نکلنے میں مدد مل سکے گی۔

ناگہانی آفت کی وجہ سے پاکستان کے تعلیمی نظام کو جو نقصان پہنچا ہے وہ ناقابل تلافی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس قدرتی آفت پر کسی کا کنٹرول نہیں۔ اس وقت سیلاب متاثرین کے ریلیف کیمپوں میں موجود بچوں کو پڑھانے کا انتظام کرنے والے رضاکار، فلاحی ادارے اور حکومت اپنی اپنی سطح پر کوشش کررہے ہیں کہ وہاں موجود بچوں کو تعلیمی طور پر مصروف کیا جائے تاکہ تعلیم کا سلسلہ محدود طور پر ہی سہی لیکن شروع کیا جاسکے۔ فلڈ ایمرجنسی کے ساتھ ساتھ تعلیمی ایمرجنسی بھی لگانا ہوگی۔
سیلاب سے متاثرہ بچوں کی ذہنی بحالی ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی طور پر جب بھی کوئی ڈیزاسٹر جیسا کہ سیلاب وغیرہ آتا ہے تو سب سے پہلے سائیکولوجسٹ اور سائیکاٹرسٹ کی ٹیم بنائی جاتی ہے جو ریلیف کیمپ میں موجود بچوں کی تشخیص کرتے ہیں۔ سب سے پہلے تو ماہرین کی یہ ٹیم دیکھتی ہے کہ یہ بچے کن کن ذہنی بیماریوں کا سامنا کررہے ہیں۔ اس کےلیے باقاعدہ بچوں کے انٹرویو کیے جاتے ہیں تاکہ اندازہ کیا جاسکے کہ بچوں کو کس طرح کے ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے اور اسی کے مطابق بچوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ تاہم پاکستان کی بات کی جائے تو سیلاب کی تباہی بہت زیادہ ہے، حکومت متاثرین کی بنیادی ضروریات ہی پورا کرلے تو وہی بہت ہے۔

سیلاب متاثرین بچے Post-Traumatic Stress Disorder(PTSD) سے گزرتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اپنے والدین کو شدید خوف میں دیکھا ہے اور وہ ان کی پریشانی اور تکلیف کی وجہ سے پریشان ہوجاتے ہیں۔ سیلاب کے فلیش بیک ان کے دماغ میں چل رہے ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے ان بچوں کو نیند میں ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔ یہ بچے اس وقت شدید خوف اور احساس کمتری کا بھی شکار ہیں۔ ان بچوں کے رویے میں افسردگی اور خاموشی بڑھتی جاتی ہے اور وہ ڈپریشن کی طرف بھی جاسکتے ہیں۔ ایسے میں بچے اپنے آپ سے تعلق ختم کرلیتے ہیں اور اپنے ماحول سے فرار چاہتے ہیں۔ کبھی روتے ہیں، کبھی سر میں درد کی شکایت کرتے ہیں۔ اس وقت ان بچوں کو سائیکولوجیکل کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے تاکہ ان بچوں کی خوداعتمادی کو بحال کیا جاسکے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے اثرات بچوں پر تادیر رہیں گے، اس کےلیے ان کی ذہنی تعلیم اور تربیت کی اشد ضرورت ہوگی۔

Leave a reply